ہندوستان اگر برطانیہ کی بجائے روسی کالونی بن جاتا تو بعد کی تاریخ کتنی مختلف ہوتی؟ اس کے کئی منظر نامے ہو سکتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ انیسویں صدی کے اوائل میں روس نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے ہندوستان ہتھیانے کا ایک منظم منصوبہ تشکیل دیا تھا مگر پھر روس کے اندرونی حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔
فروری 1801 میں 22,000 روسی فوجی جن کی قیادت عثمان مطیع پالاتوف کر رہے تھے وہ وسطِ ایشیا اور افغانستان کے راستے ہندوستان روانہ بھی ہوئی مگر اس دوران روسی صدر پاؤل اوّل، جو اس منصوبے کے خالق تھے وہ قتل کر دیے گئے۔
اس وجہ سے یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا۔ بعد میں جب پاؤل کے بیٹے سکندر اوّل تخت نشین ہوئے تو انہوں نے اس مہم کو ناقابلِ فہم قرار دیتے ہوئے ترک کر دیا۔
ہندوستان پر قبضے کا وہ منصوبہ جس میں نپولین بھی شامل تھا
روسی شہنشاہ پاؤل اوّل نے ہندوستان پر قبضے کی مہم فرانسیسی بادشاہ نپولین بونا پارٹ کی آشیر باد سے مل کر بنائی تھی۔
حالانکہ اٹھارویں صدی کے آخری عشرے میں یورپ کے تمام حکمران نہ صرف نپولین سے خائف تھے بلکہ اسے اپنی سالمیت کے لیے خطرہ بھی سمجھتے تھے۔
روس نے نپولین کے خلاف سوئٹزر لینڈ، اٹلی اور بحیرہ روم کے راستوں سے فرانس کا گھیراؤ کیا۔
تاہم جلد ہی روس سمجھنے لگ گیا کہ فرانس کے ساتھ کشیدگی سے اسے کچھ حاصل نہیں ہو گا کیونکہ اس مہم میں جانی و مالی نقصان روس کا ہو رہا تھا اور فائدہ برطانیہ اور آسٹریا اٹھا رہے تھے۔
برطانیہ نے 1800 میں یہ جانتے ہوئے بھی مالٹا پر قبضہ کر لیا کہ یہ روس کے زیر سایہ ہے۔ اس پر پاول اوّل نہ صرف بہت سیخ پا ہوا بلکہ اس نے مایوس ہو کر فرانس کے نپولین سے دوستی کر لی۔
نپولین نے خیرسگالی کے طور پر 6,000 روسی فوجیوں کو نہ صرف رہا کر دیا بلکہ ان کے اعزاز میں ایک فوجی پریڈ بھی منعقد کی جس میں انہیں فوجی تزک واحتشام کے ساتھ روس روانہ کیا گیا۔
روسی شہنشاہ نپولین کی اس عزت افزائی سے بہت متاثر ہوا جس کا اظہار اس نے فرانس کے مستقبل کے بادشاہ لوئس ہشتم کو ملک سے نکال کر کیا۔
لوئس انقلاب فرانس کے بعد سے روس میں پناہ لیے ہوئے تھا۔ جلد ہی روسی اور فرانسیسی قیادت اس بات پر متفق ہو گئی کہ وہ برطانیہ کے خلاف مل کر کام کریں گے کیونکہ برطانیہ کی وجہ سے یورپ میں کشیدگی پیدا ہو رہی تھی۔
نپولین نے پیرس میں روسی سفیر سے کہا ’ہم دنیا کو بدل دیں گے۔‘
دونوں ممالک نے جنگی منصوبے ترتیب دینا شروع کیے تو معلوم ہوا برطانیہ ایک بڑی بحری قوت ہے اس لیے سمندرسے برطانیہ پر حملے کا امکان مسترد کر دیا گیا۔
ایسے میں نپولین نے ہندوستان پر حملے کا منصوبہ بنایا جسے برطانیہ کے شاہی تاج میں سب سے قیمتی ہیرے کی حیثیت حاصل تھی۔
نپولین نے یہ خواب مصر پر حملے کے دنوں سے دیکھ رکھا تھا۔
ہندوستان پر حملے کا مشترکہ منصوبہ جو ادھورا رہ گیا
منصوبے کے مطابق فرانس کے 35,000 مسلح دستے، جن میں توپیں بھی شامل تھیں، انہیں بحیرہ ٔخزر کے ساتھ مارچ کرتے ہوئے 35,000 روسی فوجوں سے ملنا تھااور پھر دونوں فوجوں نے ایران کے شہر گرگان میں پہنچنا تھا۔
منصوبے کا یہ پہلا مرحلہ 80 دنوں میں مکمل کیا جانا تھا۔ اگلا مرحلہ، جو 50 دنوں پر مشتمل تھا، روس اور فرانس کی فوجیں ایران کے شہر گرگان سے ہوتی ہوئی افغانستان کے شہروں ہرات اور قندھار سے موجودہ پاکستان کے علاقوں سے داخل ہو کر دلی پر یلغار کرتیں۔
ضرورت پڑنے پر روس نے اضافی دستوں کی تیاری بھی کر رکھی تھی۔ دونوں ممالک کے ان مشترکہ دستوں کی قیادت فرانسیسی جنرل آندرے مسینا کر رہے تھے جنہیں 1804 میں مارشل کا خطاب بھی دے دیا گیا تھا۔
13 مارچ، 1801 کو روسی اور فرانسیسی فوجوں کی ہندوستان پر حملے کی نیت سے پیش قدمی سے پہلے راستے میں ترکمانستان، ازبکستان، بخارا، تاشقند اور قازقستان کے حکمرانوں کو بھی اعتماد میں لیا گیا تاکہ مہم کے لیے راستے میں کوئی خطرہ نہ ہو۔
اس وقت ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں کی تعداد 22,000 سے زیادہ نہ تھی۔ فرانسیسیوں اور روسیوں کو امید تھی کہ وہ پنجابیوں اور مرہٹوں کو بھی ساتھ ملا لیں گے۔
اس صورت میں انگریزوں کے لیے مشکلات بڑھ جاتیں کیونکہ اس وقت تک ایسٹ انڈیا کمپنی صرف ہندوستان کے مشرقی اور جنوبی حصوں پر قابض تھی۔
ہندوستان پر قبضے کی صورت میں طے ہوا تھا کہ روسی شمالی ہندوستان پر قبضہ کرے گا اور فرانس جنوبی حصے پر۔
تاہم یہ مہم پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکی کیونکہ روسی بادشاہ پاؤل اوّل کو ایک درباری سازش کے ذریعے 23 مارچ، 1801 کو قتل کر دیا گیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس سازش میں برطانیہ بھی شامل تھا کیونکہ ہندوستان کی جانب سے روسی اور فرانسیسی فوجوں کی پیش قدمی کے صرف 12 دن بعد ہی روسی شہنشاہ مارا گیا۔
پاؤل کے قتل پر نپولین نے غصے سے کہا تھا ’وہ مجھے تو قتل نہیں کر سکے لیکن انہوں نے میرا ایک بازو مجھ سے چھین لیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واضح رہے اس سے پہلے 24 دسمبر، 1800 میں نپولین پر بھی ایک ناکام قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔
پاؤل کی موت سے صرف ہندوستان پر قبضے کی مشترکہ مہم ہی ترک نہیں ہوئی بلکہ حالات و واقعات نے ایسا پلٹا کھایا کہ دونوں ملک پھر دوست سے دشمن بن گئے۔
صرف چند سال بعد روس فرانس مخالف اتحاد کا نہ صرف حصہ بن گیا بلکہ اس نے پیرس پر قبضہ بھی کر لیا۔
روسی حملے کے خطرے پر ہندوستان میں کیا ہوا تھا؟
ایسٹ انڈیا کمپنی نے روس کی جانب سے خطرے کے پیش نظر ہندوستان میں تیزی سے پیش قدمی شروع کر دی اور مرہٹوں کو1803 میں شکست دے کر عملاً تخت دلی کے وارث بن بیٹھے۔
انہوں نے پنجاب کو ہندوستان اور روس کے درمیان بفرسٹیٹ قرار دیتے ہوئے رنجیت سنگھ کے ساتھ 1809 میں امرتسر میں معاہد کر لیا کہ وہ شمال کی جانب سے کسی حملہ آور کا ساتھ نہیں دے گا۔
اس کے بدلے میں انگریزنہ صرف پنجاب پر حملہ نہیں کریں گے بلکہ کسی بھی بیرونی حملے کی صورت میں رنجیت سنگھ کا ساتھ بھی دیں گے۔
یہ دراصل روسی خطرہ ہی تھا جس نے انگریزوں کو پنجاب سے دور رکھا۔
بعد میں جب رنجیت سنگھ کے جانشین کمزور ثابت ہوئے تو انگریزوں نے پنجاب پر بھی قبضہ کر لیا کیونکہ اس دوران برطانیہ اور روس کے درمیان گریٹ گیم ایک اور مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔
انگریز افغانستان پر اپنا اثرو رسوخ چاہتے تھے تاکہ وہ روس کا اتحادی نہ بنے۔
افغان امیر دوست محمد خان کے روس سے تعلقات تھے جس کی وجہ سے انگریزوں نے اسے ہٹانے کے لیے کابل پر چڑھائی کر دی۔
برطانیہ نے 1839 ،1878 اور 1919 میں افغانستان کے ساتھ تین جنگیں لڑیں۔ بعض ماہرین تاریخ کہتے ہیں کہ تقسیم ہندوستان کی جڑیں بھی کہیں نہ کہیں روسی خطرے میں موجود ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔