پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد پہلے قطر میں دونوں ممالک عارضی جنگ بندی پر آمادہ ہوئے، لیکن پھر مستقل جنگ بندی کے لیے استنبول میں مذاکرات ہوئے جو بے نتیجہ ختم ہو گئے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان کسی تیسرے فریق نے ثالثی کی کوشش کی ہو۔ اس سے پہلے صدر ایوب کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان ایران نے ثالثی کروائی تھی۔
تب بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات مکمل منقطع ہو گئے تھے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ بند ہو گئی تھی۔
اس وقت بھی افغانستان کو مسئلہ وہی تھا جو آج ہے، یعنی وہ ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم نہیں کرتا اور پشتون قوم پرستوں کی حمایت کرتا ہے۔
اسی پس منظر میں جب 61-1960 میں دونوں ممالک کے درمیان شدید سرحدی جھڑپیں ہوئیں تو چھ ستمبر 1961 کو پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات ختم کردیے جو اگلے دو سال تک منقطع رہے۔
شاہِ ایران کو تنازعے میں روسی مداخلت کا خطرہ تھا
ایران صرف پاکستان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک ہی نہیں بلکہ شاہ ایران وہ پہلے غیر ملکی سربراہ بھی ہیں، جنہوں نے مارچ 1950 میں پاکستان کا سرکاری دورہ کیا تھا۔
یہ شاہ ایران ہی تھے جو پاکستان کو پہلے سیٹو اور پھر سینٹو میں لے کر گئے، جس سے پاکستان کو امریکی ہتھیاروں کی فراہمی کا راستہ کھلا۔
افغانستان میں محمد داؤد خان کے 10 سالہ دور (63-1953) کے درمیان پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا جو بالآخر دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے خاتمے کا باعث بنا۔
پاکستان امریکی اتحاد کا حصہ بن چکا تھا اس لیے خدشہ تھا کہ روس ڈیورنڈ لائن اور پشتونستان کے مسئلے پر افغانستان کو مدد فراہم کرے گا، جس سے خطے میں کشیدگی شروع ہو جائے گی۔
اس پر امریکہ کی ایما پر شاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے افغانستان کو ثالثی کی پیشکش کر دی۔ اس بات کا اظہار اس وقت کے افغان صحافی صباالدین ’کوشک کئی‘ نے بھی اپنی تحریروں میں کیا ہے جو اس وقت افغانستان کی سرکاری نیوز ایجنسی باختر کے سربراہ تھے۔
وہ لکھتے ہیں: ’شاہ ایران نے افغان بادشاہ ظاہر شاہ کو قائل کیا کہ وہ پشتونستان کے مسئلے پر نرم گوشہ اختیار کریں اور پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنائیں۔‘
جب ظاہر شاہ نے محمد داؤد سے چھٹکارہ حاصل کر لیا تو گویا پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کی راہ ہموار ہو گئی۔ 1963 میں محمد یوسف افغانستان کے وزیراعظم بنے تو انہوں نے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کی خواہش ظاہر کر دی کیونکہ تجارتی بندش سے افغانستان کو بہت زیادہ مالی نقصانات ہو رہے تھے۔
ایران کے وزیر خارجہ عباس آرام نے افغان وزیراعظم محمد یوسف کو ایک خط لکھا، جس میں اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ ایران، پاکستان اور افغانستان کے درمیان ثالثی کروانا چاہتا ہے۔
اسی طرح کا ایک خط شاہ ایران نے افغان بادشاہ ظاہر شاہ کو بھی لکھا۔ چنانچہ افغان بادشاہ کی ہدایت پر افغانستان نے ایران کی ثالثی کو قبول کر لیا۔
تہران مذاکرات میں کیا ہوا؟
افغانستان کی جانب سے تہران میں ہونے والے مذاکرات کی نمائندگی وزیر ثقافت سید قاسم شاہ، نائب وزیر خارجہ نوراحمد اعتمادی اور ایران میں افغانستان کے سفیر محمد عثمان نے کی جبکہ پاکستان کی نمائندگی وزیرِ خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو اور تہران میں پاکستان کے سفیر اختر حسین نے کی۔
یہ مذاکرات کئی دن جاری رہے جس کے بعد 27 مئی، 1963 کو دونوں ملکوں کے وفود نے سفارتی تعلقات کی بحالی پر اتفاق کر لیا۔
سرحدیں دوبارہ کھل گئیں جس کے بعد پاکستان نے پشتون قوم پرست رہنماؤں کے ساتھ نرمی کا مظاہرہ کیا لیکن دوسری جانب افغان وزیر ثقافت نے تہران میں ہی بیان دے دیا کہ افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم نہیں کیا۔
اس پر ذوالفقار علی بھٹو نے راولپنڈی پہنچتے ہی بیان دیا کہ پشتونستان ایک مردہ مسئلہ ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ تہران مذاکرات کامیاب رہے ہیں۔
پاکستان نے افغانستان کے ساتھ دو سال تک تعلقات منقطع کیے رکھے جو شاہِ ایران کی کوششوں کے نتیجے میں بحال ہوئے۔
امریکہ نے بھی بیان دیا کہ افغانستان پشتونستان کے مسئلے پر مداخلت سے باز رہے کیونکہ اس سے روسی مداخلت کا راستہ کھل سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن دوسری جانب جب ظاہر شاہ 1963 میں امریکہ کے دورے پر گئے تو انہوں نے کہا ’جب تک پشتو بولنے والوں کا مسئلہ دونوں ممالک کے درمیان موجود ہے پاکستان کے ساتھ امن قائم کرنا مشکل ہے۔
’افغانستان پشتونستان کے مسئلے کو ترک نہیں کر سکتا لیکن فی الاحال اس نے تلوار نیام میں ڈال دی ہے۔‘
صدر ایوب نے یکم جولائی، 1964 کو جب کابل کا دورہ کیا تو افغان بادشاہ نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔
11 اکتوبر کو صدر ایوب نے کراچی میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’افغانوں کو شکایت ہے کہ ڈیورنڈ لائن، جس پرانہوں نے برطانوی ہندوستان کے ساتھ اتفاق کیا تھا، درست نہیں لیکن اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ڈیورنڈ لائن صحیح جگہ پر نہیں تو پھر پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اس سرحد کے بارے میں سوچے جو محمود غزنوی، تیمور، بابر اور احمد شاہ ابدالی کے زمانے میں موجود تھی۔‘
پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایران کی ثالثی سے امن تو ہو گیا مگر مسئلہ جوں کا توں ہی رہا۔
شاہ ایران کی امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزدگی
اس سال مئی میں ہونے والی پاکستان انڈیا جنگ بند کروانے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان نے امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا تھا۔
لیکن شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ1961 سے1963 کے درمیان پاکستان اور افغانستان میں جھڑپوں کے بعد نوبت جنگ تک پہنچ گئی تھی۔
دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہو چکے تھے۔ ایسے میں شاہِ ایران رضا شاہ پہلوی نے دونوں ملکوں کے درمیان تہران میں امن مذاکرات کروائے تھے جن کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہو گئے تھے اور جنگ ٹل گئی تھی۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان کامیاب ثالثی کروانے پر رضا شاہ پہلوی کو پہلے 1964 میں اور بعد ازاں 1967 میں امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا، جس کی تفصیلات نوبیل پرائز کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
ان میں لکھا ہوا ہے کہ ’رضا شاہ پہلوی نے ایران میں اہم اصلاحات متعارف کروائی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مشرقِ وسطیٰ میں امن کے قیام کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے 1961 سے 1963 تک کامیاب مذاکرات کروائے۔‘
امن کا نوبیل انعام اس وقت شاہِ ایران کو نہیں مل سکا تھا کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات تو بحال ہو گئے تھے مگر تنازع اپنی جگہ موجود رہا۔ اس وقت جو چنگاریاں راکھ میں دبی رہ گئیں تھیں، وہ آج بھی ایک خطرناک الاؤ کے خطرے کے طور پر موجود ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔