تاجِ برطانیہ اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن تنازع نے اسی وقت سر اٹھا لیا تھا جب ہندوستان کو آزادی دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔
آج لوگوں کے لیے شاید یہ بات حیرانی کی ہو کہ اس وقت افغانستان کے اس مؤقف کو جس شخصیت نے رد کیا تھا وہ جواہر لعل نہرو تھے، جو اس وقت کی حکومتِ ہند میں وزیر خارجہ کا قلمدان سنبھالے ہوئے تھے۔
برطانیہ میں اس وقت لیبر پارٹی کے کلیمنٹ ایٹلی وزیراعظم تھے، جنہوں نے نہرو کے دیے ہوئے دلائل کو ہی برطانیہ کے سرکاری مؤقف کے طور پر افغانستان کے سامنے رکھا تھا۔
تقسیمَ ہند کا اعلان اور افغانستان کا مطالبہ
3 جون کو وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیمِ ہند کے منصوبے کا اعلان کیا تو ہندوستان بھر میں پھیلی ہوئی 584 نیم خود مختار ریاستوں اور راجواڑوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ ان کا کیا بنے گا؟
وائسرائے ہند نے آگاہ کیا کہ انہیں پاکستان یا انڈیا میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرنا پڑے گا، لیکن اس وقت کی سرحد حکومت نے اپنے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کر دیا۔
اسی تناظر میں لندن میں افغانستان کے سفیر نے برطانوی وزیرخارجہ سے ملاقات کی اور مطالبہ کیا کہ صوبہ سرحد کے عوام کو پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ایک کے ساتھ شامل ہونے پر مجبور نہ کیا جائے بلکہ انہیں اپنے لیے ایک الگ وطن پختونستان کا اختیار بھی دیا جائے اور اگر پٹھان افغانستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو انہیں یہ اختیار بھی دیا جانا چاہیے۔
افغان حکومت نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کر دیا کہ صوبہ سرحد کے افغان دراصل افغانستان کا حصہ ہیں جنہیں گذشتہ صدی کی اینگلو افغان جنگوں میں برطانیہ نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔
افغانوں اور صوبہ سرحد کے لوگوں کا ہندوستان کےعوام کے ساتھ تعلق مصنوعی نوعیت کا ہے، چنانچہ صوبہ سرحد کو یا تو آزاد ریاست بننے یا اپنے وطن افغانستان میں شامل ہونے کا اختیار دیا جائے۔ اس قضیے کی تمام تفصیلات ’ Transfer of Power‘ نامی دستاویز کے والیم 11 میں دی گئی ہیں۔
جب نہرو نے افغانستان کے دعوے کو رد کیا
حیرت کی بات یہ ہے کہ جب افغانستان کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آیا تو برطانیہ نے اس پر کوئی مؤقف اپنانے سے پہلے یہ ضروری سمجھا کہ اس پر حکومتِ ہند کی رائے بھی لے لی جائے، جس کے وزیر خارجہ کا قلمدان جواہر لعل نہرو کے پاس تھا۔
نہرو تقسیمِ ہند کے اعلان سے پہلے آزاد پختونستان کے حامی تھے، جس کا مقصد قیامِ پاکستان کے منصوبے کو سبوتاژ کرنا تھا لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ مطالبۂ پاکستان کو تاجِ برطانیہ نے تسلیم کر لیا ہے تو انہوں نے پلٹا کھایا اور افغانستان کے اس دعوے کو رد کر دیا۔
اس کا اظہار انہوں نے 29 جون 1947 کو حکومتِ ہند کے اس مراسلے میں کیا جو انہوں نے برطانوی وزیر خارجہ کو بھیجا تھا جس میں کہا گیا کہ ’1893 کے ڈیورنڈ معاہدے میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے پابند ہیں، جس پر دونوں فریق اس وقت سے عمل پیرا ہیں جب سے یہ معاہدہ ہوا تھا، تاہم اب افغان حکومت سفارتی سطح پر اور اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے جو مؤقف اختیار کر رہی ہے وہ ہندوستان کے داخلی معاملات میں سراسر دخل اندازی کے زمرے میں آتا ہے، جس کی قطعاً اجازت نہیں دی جا سکتی۔ آزاد پختونستان ریاست ہونی چاہیے یا نہیں؟ یہ سوال اٹھانے کا حق بھی ہندوستان کے دائرے میں رہتے ہوئے بنتا ہے۔‘
اگلے ہی روز حکومتِ ہند کی جانب سے ایک اور مراسلہ برطانیہ بھیجا گیا جس میں مزید وضاحت کرتے ہوئے نہ صرف ایسے کسی بھی امکان کی سختی سے مخالفت کی گئی بلکہ یہ لکھا گیا کہ ’اس خطے میں دو نئے ملک قائم ہونے سے صوبہ سرحد کی جغرافیائی حیثیت میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں ہو گی، جس سے اس کی سلامتی متاثر ہونے کا احتمال ہو، شمال مغربی سرحدی صوبے میں اگر ایک چھوٹی سی ریاست قائم کی جائے گی تو یہ نہ صرف اپنی سلامتی کا تحفظ نہیں کر سکے گی بلکہ ہندوستان کی مجموعی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دے گی۔
’ہم افغانستان کے ساتھ مستقبل میں اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں لیکن اندرونی معاملات میں اس کی مداخلت کو برداشت نہیں کریں گے۔ صوبہ سرحد دونوں میں سے کسی ایک ڈومینین کے اندر خود مختار صوبے کی حیثیت سے شامل ہو گا، تاہم یہ ہندوستان کا داخلی معاملہ ہے۔ جس سے افغانستان کا کوئی سروکار نہیں۔‘
نہرو کا یہ خط وزیراعظم ایٹلی نے 3 جولائی کو ہونے والے کابینہ کے اجلاس کے سامنے رکھا، جس میں اس کی تائید کرتے ہوئے اسے لندن میں افغان سفیر کے حوالے کر دیا گیا۔
مسلم لیگ ڈیورنڈ لائن کے مسئلے پر واضح نہیں تھی
زاہد چوہدری کی کتاب ’پاکستان کیسے بنا؟‘ جسے حسن جفری نے مرتب کیا ہے، میں لکھا ہوا ہے کہ حکومتِ ہند کے برعکس مسلم لیگ نے ایک الگ مؤقف اختیار کیا اور کہا کہ ’اگر آزادی کے بعد ہندوستان ہی تاج کا واحد جانشین بنا تو اس صورت میں پاکستان، برطانیہ اور افغانستان کے درمیان 1921 میں ہونے والے معاہدے کی پاسداری کا پابند نہیں ہو گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واضح رہے کہ 1921 کے معاہدے میں ڈیورنڈ لائن کا براہِ راست نام نہیں لیا گیا لیکن اس معاہدے کی ایک ذیلی شق 5 میں لکھا گیا کہ دونوں فریق 1919 کے معاہدے میں شامل تمام سرحدی بندوبست کو برقرار رکھیں گے۔
برطانیہ نے نہ صرف مسلم لیگ کے اس مؤقف پر برہمی کا اظہار کیا بلکہ وزیر برائے امور ہند ولیم ہیئر نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو لکھا کہ ’مسلم لیگ کو یہ نقطۂ نظر اپنانا ہو گا کہ افغانستان ایک ایسے علاقے کے بارے میں دعویٰ کر رہا ہے، جس کے بارے میں بین الاقوامی معاہدوں کا وارث اپنے قیام کے بعد پاکستان ہو گا اور اس علاقے کے بارے میں دعویٰ اس کے داخلی معاملات میں مداخلت تصور کیا جائے گا۔‘
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اس حوالے سے قائداعظم سے ملاقات کی اور انہیں پہلے تو برطانوی حکومت کی جانب سے افغان حکومت کے ساتھ اختیار کردہ مؤقف کے بارے میں آگاہ کیا اور پھر ولیم ہیئر کا پیغام پہنچایا جس پر قائداعظم نے مستقبل کی حکومت کو افغانستان کے ساتھ کیے گئے بین الاقوامی معاہدوں کا وارث قرار دیے جانے کی تائید کی اور برطانوی حکومت کے مؤقف کو منظور کر لیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ڈیورنڈ لائن کے مسئلے پر واضح کیوں نہیں تھی؟ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ابتدا میں مسلم لیگ کو شبہ تھا کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن پہلے ہندوستان کو آزادی دیں گے اور اس کے چھ سے آٹھ ماہ بعد پاکستان کو اقتدار سونپا جائے گا۔ جب قائداعظم نے یہ تجویز رد کر دی تو فیصلہ ہوا کہ دونوں ممالک کا قیام ایک ساتھ ہی کیا جائے گا۔ ڈیورنڈ لائن پر مسلم لیگ کے ابتدائی مؤقف کو اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔
صوبہ سرحد کے مستقبل کے بارے میں تاج برطانیہ اور حکومتِ ہند ایک صفحے پر تھیں۔ جب سرحد میں ریفرنڈم کروایا گیا تو اس میں تیسرے آپشن کو شامل نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے خان عبد الغفار خان نے بائیکاٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم ان دونوں میں سے کسی ایک آپشن کو بھی اختیار کرنا نہیں چاہتے، اس لیے ہم رائے شماری میں حصہ نہیں لے سکتے کیونکہ ہم آزاد پختونستان چاہتے ہیں۔‘
تقسیمِ ہند کو 78 سال ہو چکے ہیں۔ انڈیا سرکاری سطح پر تو ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کو دو طرفہ مسئلہ کہتا ہے مگر درپردہ پاکستان دشمنی کی وجہ سے افغانستان کو شہہ دیتا ہے۔ تقسیم ہند کے وقت خطرہ مغربی سرحد تھی مگر بعد میں خطرہ وہ سرحد بن گئی جو پاکستان و انڈیا کے درمیان موجود ہے اور جس پر اب پانچ جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔
پہلی جنگ نہرو کے مرنے کے ایک سال بعد ہی ہو گئی تھی۔ تب سے اب تک زمانۂ امن بس دو جنگوں کے درمیان قفہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ لگتا ہے ڈیورنڈ لائن تنازع بھی اب اسی مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔