چند روز قبل ہی میں ایک نجی ایئرلائن کی پرواز میں سفر کر رہا تھا جب میری نظر چند مسافروں پر پڑی جو فضائی میزبان کے حفاظتی ہدایات دینے کے دوران اس کی تصاویر بنا رہے تھے۔ یہ لمحہ محض ایک فرد کی بے احتیاطی یا بدتمیزی کا نہیں تھا بلکہ ہمارے اجتماعی رویے، قانونی نفاذ اور ادارہ جاتی سنجیدگی پر ایک بڑا سوال تھا۔
میں نے فوری طور پر اس بات کی نشاندہی ایک دوسرے فضائی میزبان کو کی، جس پر متعلقہ عملے نے ان مسافروں کو تصاویر ڈیلیٹ کرنے کا کہا۔ بظاہر معاملہ وہیں ختم ہو گیا، مگر حقیقت میں یہ وہ مقام تھا جہاں کارروائی ختم نہیں بلکہ شروع ہونی چاہیے تھی۔ ایسے افراد کو پرواز کے اختتام پر متعلقہ اداروں کے حوالے کیا جانا چاہیے تھا۔
فضائی سفر ایک بند اور محدود ماحول ہوتا ہے جہاں مسافر اور عملہ ایک دوسرے کے ساتھ چند گھنٹوں کے لیے ایک مشترکہ جگہ میں موجود ہوتے ہیں۔ اس ماحول میں کسی بھی قسم کی ہراسانی، بالخصوص خواتین عملے کی اجازت کے بغیر تصاویر بنانا، نہ صرف اخلاقی طور پر قابلِ مذمت ہے بلکہ قانونی طور پر بھی جرم ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں اکثر ایسے واقعات کو ’چھوٹی بات‘ سمجھ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور یہی رویہ ایسے افراد کو مزید حوصلہ دیتا ہے۔
پاکستان میں خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف واضح قوانین موجود ہیں، مگر مسئلہ ان قوانین کے اطلاق اور عوامی شعور کی کمی کا ہے۔ پرواز کے دوران کسی خاتون فضائی میزبان کی تصاویر اس کی اجازت کے بغیر بنانا، بالخصوص اس پیشہ ورانہ ماحول میں، پرائیویسی کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ یہ عمل نہ صرف ذاتی وقار کو مجروح کرتا ہے بلکہ کام کی جگہ کو غیر محفوظ بنا دیتا ہے۔
قانونی اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 (پیکا) اس نوعیت کے عمل پر لاگو ہوتا ہے۔ اس قانون کے تحت کسی فرد کی اجازت کے بغیر اس کی تصویر بنانا، محفوظ کرنا یا پھیلانا، اگر اس کا مقصد ہراسانی یا بدنامی ہو، تو قابلِ سزا جرم ہے۔ دفعہ 21 بالخصوص وقار اور پرائیویسی کے خلاف جرائم سے متعلق ہے، جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کسی کی نجی تصویر یا ویڈیو اس کی اجازت کے بغیر بنانا یا شیئر کرنا جرم ہے۔ اگرچہ جہاز کے اندر موجود فضائی میزبان عوامی جگہ پر کام کر رہی ہوتی ہیں، مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان کی تصاویر بنانا جائز ہو جاتا ہے۔
اسی طرح تعزیرات پاکستان میں بھی خواتین کی عزت اور وقار کے تحفظ سے متعلق دفعات موجود ہیں۔ دفعہ 509 کے تحت کسی خاتون کی عزت کو مجروح کرنے والا کوئی بھی لفظ، اشارہ یا عمل جرم ہے۔ کسی خاتون کی بلا اجازت تصاویر بنانا واضح طور پر اس زمرے میں آتا ہے، خصوصاً جب اس کا مقصد محض تجسس یا تفریح ہو۔
کام کی جگہ پر ہراسانی کے خلاف تحفظ فراہم کرنے والا قانون، یعنی ’تحفظِ خواتین بمقابلہ ہراسانیِ کارگاہ ایکٹ 2010‘ بھی اس معاملے میں اہم ہے۔ اگرچہ فضائی میزبان ایک موبائل ورک پلیس میں کام کرتی ہیں، مگر جہاز ان کا دفتر ہی ہوتا ہے۔ اس قانون کے مطابق ایئرلائن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عملے کے لیے محفوظ اور باعزت ماحول یقینی بنائے۔ اگر پرواز کے دوران ہراسانی کا واقعہ پیش آئے تو ایئرلائن پر لازم ہے کہ وہ محض وقتی طور پر معاملہ رفع دفع نہ کرے بلکہ اس کی باقاعدہ رپورٹنگ اور قانونی کارروائی کو یقینی بنائے۔
یہاں ایک اور اہم پہلو سامنے آتا ہے۔ ایئرلائنز کی اندرونی پالیسی اور تربیت۔ دنیا کے کئی ممالک میں پرواز کے دوران ہراسانی یا بدتمیزی کرنے والے مسافروں کو ’Unruly Passengers‘ قرار دے کر نہ صرف جرمانہ کیا جاتا ہے بلکہ آئندہ سفر سے بھی روکا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں بھی ایئرلائنز کے پاس یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ ایسے مسافروں کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائیں۔ صرف تصاویر ڈیلیٹ کروانا کافی نہیں، بلکہ واقعے کی رپورٹ تیار کر کے اسے سول ایوی ایشن اتھارٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ شیئر کرنا چاہیے۔
ایئرپورٹ سکیورٹی فورس یعنی اے ایس ایف اور ایف آئی اے کا کردار بھی اس حوالے سے انتہائی اہم ہے۔ پرواز کے اختتام پر اگر کیبن کریو کسی مسافر کے خلاف شکایت درج کرائے تو اسے سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ ایسے افراد کو مختصر پوچھ گچھ کے بعد محض وارننگ دے کر چھوڑ دینا ایک خطرناک روایت بن سکتی ہے۔ قانون کا مقصد صرف سزا دینا نہیں بلکہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام بھی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم ذمہ داری صرف اداروں پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ بحیثیت مسافر، ہماری اجتماعی ذمہ داری بھی ہے کہ ہم ایسے رویوں کو خاموشی سے برداشت نہ کریں۔ جہاز میں موجود دیگر مسافروں کا کردار اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص ہراسانی کا شکار ہو رہا ہو اور اردگرد بیٹھے لوگ خاموش رہیں تو یہ خاموشی بھی بالواسطہ طور پر جرم کو تقویت دیتی ہے۔ مہذب معاشروں میں ایسے واقعات پر لوگ آواز اٹھاتے ہیں، عملے کو اطلاع دیتے ہیں اور متاثرہ فرد کا ساتھ دیتے ہیں۔
پاکستان جیسے معاشرے میں، جہاں خواتین پہلے ہی عوامی مقامات پر عدم تحفظ کا شکار ہوتی ہیں، فضائی سفر کو محفوظ بنانا مزید ضروری ہو جاتا ہے۔ فضائی میزبان نہ صرف ایئرلائن کی نمائندہ ہوتی ہیں بلکہ مسافروں کی حفاظت کی ذمہ داری بھی انہی پر ہوتی ہے۔ اگر وہ خود عدم تحفظ محسوس کریں گی تو مجموعی طور پر سفر کا معیار بھی متاثر ہو گا۔
میڈیا اور سوشل میڈیا کا کردار بھی اس ضمن میں اہم ہے۔ اگر ایسے واقعات کو ذمہ داری کے ساتھ اجاگر کیا جائے، بغیر سنسنی خیزی کے، تو عوامی شعور میں اضافہ ہو سکتا ہے، تاہم اس میں بھی احتیاط ضروری ہے کہ متاثرہ خاتون کی شناخت یا تصاویر مزید پھیلانے کا سبب نہ بنیں۔ مقصد آگاہی ہونا چاہیے نہ کہ تماشا۔
یہ کہنا ضروری ہے کہ قانون صرف کتابوں میں لکھے رہنے کے لیے نہیں ہوتا۔ اس کا حقیقی مقصد تب پورا ہوتا ہے جب اس پر عمل ہو۔ پرواز کے دوران فضائی میزبان کی بلا اجازت تصاویر بنانا ایک سنجیدہ جرم ہے جسے معمولی بدتمیزی سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ ایئرلائنز کو سخت پالیسی اپنانا ہو گی، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فوری اور مؤثر کارروائی کرنی ہو گی اور ہمیں بحیثیت مسافر اپنی سماجی ذمہ داری نبھانی ہو گی۔
جب تک ہم سب مل کر یہ طے نہیں کرتے کہ ہراسانی کسی صورت قابلِ قبول نہیں تب تک ایسے واقعات بار بار ہوتے رہیں گے۔ خاموشی کو توڑنا، قانون کو حرکت میں لانا اور انسانی وقار کا دفاع کرنا ہی ایک محفوظ اور مہذب فضائی سفر کی ضمانت بن سکتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔