تحریک تحفظ آئین پاکستان کے تحت اتوار کو اسلام آباد میں ہونے والی دو روزہ کانفرنس کے اختتام پر جاری اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ غزہ میں پاکستان فوج کو بھیجنے سے متعلق ’دھند ختم کرتے ہوئے سب کو اعتماد میں لیا جائے۔‘
اعلامیے میں ملک کے سیاسی، معاشی اور سماجی حالات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متعدد مطالبات کیے گئے ہیں۔
اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق صوبائی وزیر یاسمین راشد سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو فوری رہا کیا جائے۔
ساتھ ہی عمران خان اور ان کی اہلیہ سے ملاقاتوں پر عائد پابندی کو فی الفور ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
کانفرنس نے میڈیا سے متعلق پیکا کو ’کالا قانون‘ قرار دیتے ہوئے اس کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
غزہ میں امن فورس کے حوالے سے اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان فوج کی ممکنہ تعیناتی سے متعلق پھیلی دھند کو ختم کیا جائے اور سب کو اعتماد میں لیا جائے۔
اعلامیے میں ڈان نیوز، صحافی مطیع اللہ جان، وکیل ایمان مزاری اور ان کے شوہر اور وکیل ہادی چھٹہ سمیت دیگر کے خلاف مبینہ زیادتیوں، جھوٹے مقدمات اور میڈیا پر دباؤ کی شدید مذمت کرتے ہوئے تمام ’جھوٹے‘ کیسز کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
کانفرنس نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ عوام پر عائد ٹیکسز میں کمی کی جائے۔
اعلامیے میں لوگوں کو لاپتہ کیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے گرفتار ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر لاپتہ افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔
اسی طرح خیبرپختونخوا میں منعقدہ امن جرگے کے متفقہ لائحہ عمل پر عمل درآمد کا مطالبہ بھی اعلامیے کا حصہ ہے۔
کانفرنس نے پی ٹی آئی پر عائد مبینہ پابندی فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
تحریک تحفظ آئین پاکستان کا مزید کہنا ہے کہ ’افغانستان کے ساتھ بگڑتی ہوئی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مذاکرات کیے جائیں۔‘
اعلامیے میں خیبرپختونخوا کو این ایف سی ایوارڈ میں اس کا مکمل حصہ دینے کا مطالبہ شامل ہے۔
کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ اپوزیشن مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ اعلامیے میں آٹھ فروری کو یوم سیاہ منانے کا اعلان ہوا۔
’آئین پرچی کے ذریعے فیصلے کرانے کی اجازت نہیں دیتا‘
اس سے قبل صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ آئین پرچی کے ذریعے فیصلے کرانے کی اجازت نہیں دیتا۔
انہوں نے کہا ’آئین آپ کو اجازت نہیں دیتا کہ ججز سے پرچی کے ذریعے فیصلے کرائیں۔ ججز خود کہہ رہے ہیں کہ آپ مداخلت کرتے ہیں، اس طرح ملک نہیں چلے گا۔‘
محمود خان اچکزئی کی زیر صدارت کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں جنید اکبر اور اسد قیصر سمیت سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، مصطفیٰ نواز کھوکھر، سابق گورنر سندھ زبیر عمر و دیگر رہنماؤں کے علاوہ وکلا، صحافیوں، دانش وروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔
کانفرنس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اس اجتماع کا مقصد سیاسی درجۂ حرارت کو کم کرنا اور جاری سیاسی اختلافات کا حل نکالنا ہے۔
آج سہیل آفریدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا امن جرگہ کیا۔ جرگے میں تمام مکتبۂ فکر کے لوگ آئے اور متفقہ فیصلے کیے۔
’لیکن بدقسمتی سے پی ٹی ایم کے لوگوں کو باہر سے اٹھا لیا گیا۔ ایسے کرنے سے لوگوں کے دلوں میں نفرت اور بڑھے گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان کی سب سے بڑی اسٹیبلشمنٹ سوشل میڈیا ہے۔
’ایک آدمی جیل میں بیٹھا ہے، اس کی اہلیہ جیل میں ہے۔ اس سے لوگوں کے دل آپ کی طرف نہیں مڑ جائیں گے۔
’بند کمروں کے فیصلہ سازوں اور سیاسی جماعتوں کو سمجھنا ہو گا۔ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے میں آپ لوگوں کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔‘
سہیل آفریدی نے دعویٰ کیا کہ ’ایک صوبے کو تمام وسائل دیے جا رہے ہیں، دوسرے صوبے کو کچھ نہیں مل رہا۔
ایک صوبے کے وزیرِ اعلیٰ کو ایئر فورس کا طیارہ ملتا ہے جبکہ دوسرے کی تذلیل ہوتی ہے۔ 4758 ارب روپے وفاق پر واجب الادا ہیں۔
’ایک وزیر اعلیٰ کو پیسے فراہم کیے جاتے ہیں، مجھے اڈیالہ کے باہر ایک پولیس اہلکار روک دیتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’سیاسی سزائیں تاریخ قبول کرتی ہے نہ قانون‘
عوام پاکستان پارٹی کے کنوینئر شاہد خاقان عباسی نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ’عمران خان کو جو سزائیں دی گئیں، ماضی میں بھی ایسی سزائیں دی جاتی رہی ہیں۔
’وزیراعظم کو بھی سزائیں ملیں، سیاست دانوں کو بھی سزائیں ملیں۔ نہ ایسی سزاؤں کو تاریخ قبول کرتی ہے اور نہ قانون قبول کرتا ہے۔ ‘
انہوں نے کہا ’ایسی سزائیں دے دی جاتی ہیں اور بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ سزائیں غلط دی گئیں۔
’ذوالفقار علی بھٹو کو بھی پھانسی کی سزا ہوئی، 50 سال ہو گئے، آج تک وہ فیصلہ متنازع ہے۔‘
شاہد خاقان عباسی کے مطابق ملک کے جو موجودہ حالات ہیں، ان میں بظاہر بہتری دکھائی نہیں دے رہی۔
’حکومت اور اپوزیشن، سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ سب مل کر بیٹھیں اور راستہ ڈھونڈیں کہ ملک کو کیسے ترقی دی جائے گی۔
’بدقسمتی سے حکومت اپوزیشن کو اس کا مقام نہیں دے رہی۔ حکومت کی جانب سے فسطائیت اور تشدد پر زور دیا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔‘
’عوام کی بات کوئی نہیں کر رہا‘
محمد زبیر نے کانفرنس سے خطاب میں کہا ’اس وقت سیاسی حالات کی وجہ سے معاشی حالات خراب ہیں۔ اس وقت حکومت کے پاس سیاسی ساخت نہیں۔
’اس وقت وزیراعظم اور وزیرِ خزانہ کو سنیں، سب یہی کہہ رہے ہیں کہ فِسکل پالیسی یہ کر رہی ہے، مگر عوام کی بات کوئی نہیں کر رہا۔
انہوں نے کہا اس وقت 12 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں جبکہ بے روزگاری کی شرح نو فیصد سے بڑھ کر 22 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
’مہنگائی تحریکِ انصاف کے دور میں 12 فیصد تھی، اب 38 فیصد ہے۔ 1998 سے لے کر اب تک 14 آئی ایم ایف پروگرام کیے جا چکے ہیں۔
’آج حکومت اور آئی ایم ایف یہ کہہ رہے ہیں کہ سب اچھا ہے، کوئی عوام سے پوچھے۔ پاکستان میں کوئی کاروبار نہیں کر رہا۔‘