صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ چھ نومبر کی شام وزیر اعلیٰ محمد سہیل آفریدی اور ملاکنڈ سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی جنید اکبر کو گرفتار کرنے کے لیے اسلام آباد پولیس پختونخوا ہاؤس گئی تھی لیکن وزیر اعلیٰ وہاں موجود نہیں تھے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے ڈیجیٹل میڈیا کے لیے ترجمان یار محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اسلام آباد کے تھانہ سیکرٹریٹ کے اہلکار وارنٹ گرفتاری لے کر خیبر پختونخوا ہاؤس اسلام آباد گئے۔
انہوں نے بتایا کہ ’سہیل افریدی وزیر اعلیٰ ہاؤس پشاور میں تھے جب کہ تھانہ سیکرٹریٹ کے ایس ایچ او پانچ چھ پولیس اہلکاروں کے ساتھ وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کے لیے پختونخوا ہاؤس جا کر واپس چلے گئے۔‘
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا گذشتہ روز پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان سے ملنے چھ اکتوبر کو اڈیالہ جیل گئے لیکن ان سے ملاقات نہ ہو سکی جس کے بعد وہ گذشتہ روز شام کو ہی واپس پشاور پہنچ گئے تھے۔
مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا شفیع جان کے مطابق یہ وارنٹ گرفتاری گذشتہ سال 24 نومبر کو سہیل آفریدی اور دیگر رہنماؤں کے خلاف درج ایک مقدمے کے حوالے سے تھا۔
سوال یہ ہے کہ پرانے مقدمات میں اچانک چھاپے کیوں شروع ہوئے اور کیا اب وزیر اعلیٰ سمیت دیگر پارٹی ارکان عمران خان سے ملنے اڈیالہ یا اسلام آباد نہیں جائیں گے؟
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ وزیر اعلیٰ نے گذشتہ دنوں اڈیالہ جیل کے باہر اداروں کے خلاف سخت بیان دیا شاید اسی وجہ سے اسلام آباد پولیس وارنٹ گرفتاری لے کر خیبرپختونخوا ہاؤس گئی۔ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ یہ اس کے صوبائی ارکان پر اسلام آباد کے دروازے بند کرنے کی کوشش ہے۔
اس حوالے سے پی ٹی آئی کے صوبائی ڈپٹی سیکریٹری انفارمیشن اکرام کھٹانہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس حوالے سے دو دن پہلے فیصل واوڈا نے بتایا تھا کہ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے رہنماؤں کو اسلام آباد میں داخل ہونے سے روکے جانے پر غور ہو رہا ہے۔
اکرام کھٹانہ نے بتایا کہ ایسا ہی ہوا اور پرانے مقدمات میں گرفتاری کی کوشش کی گئی لیکن یہ خام خیالی ہوگی کہ ایسے ہتھکنڈوں سے پی ٹی آئی والے ڈر جائیں گے کیونکہ اسلام آباد بھی ہمارا ہے اور خیبر پختونخوا بھی ہمارا ہے۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا وزیر اعلیٰ اب عمران خان سے ملاقات کے لیے اڈیالہ نہیں جائیں گے؟ جواب میں اکرام کھٹانہ کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پہلے بھے جیلیں کاٹی ہیں اور اب بھی ہم تیار ہیں لیکن ایسے حربے استعمال کرنے سے ہم اپنی مقصد سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔‘
گذشتہ روز اڈیالہ جیل کے باہر سہیل آفریدی کی سخت گفتگو پر اکرام کھٹانہ نے کہا کہ وہ صوبے کے چیف ایگزیکٹیو ہیں اور وہ ہر بات سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’وزیر اعلٰی اور دیگر قائدین جو بھی بیان دیتے ہیں تو وہ سوچ سمجھ کر دیتے ہیں کیوں کہ وہ اسی علاقے کے ہیں اور وہاں کے عوام کی مسائل کو سمجھ سکتے ہیں۔‘
پشاور میں مقیم صحافی طارق وحید کی رائے میں بطور صوبائی چیف ایگزیکٹیو سہیل آفریدی نے گذشتہ روز جو بیان دیا ہے وہ ان کے منصب کے اعتبار سے انہیں زیب نہیں دیتا۔
طارق وحید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ماضی میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں ہیں اور انسانی جانیں گئیں۔ یہ واقعات رپورٹ بھی ہوئے لیکن وزیر اعلیٰ نے جو الزام لگایا ہے تو ایسا کہیں نہیں دیکھا گیا۔
طارق وحید نے کہا: ’ایسے بیانات کی توقع کسی طلبہ تنظیم کے رہنما یا کسی مقامی ورکر سے تو کی جا سکتی ہے لیکن ایک ذمہ دار منصب پر بیٹھ کر ایسا بیان دینا اس منصب کے شایان شان نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گرفتاری کی کوشش کے حوالے سے طارق وحید نے کہا کہ اس کوشش سے انہیں نہیں لگتا یہ اس بیان کا ردعمل تھا بلکہ یہ انہیں معمول کی کارروائی لگتی ہے لیکن شائد دباؤ بڑھانے کے لیے ایسا کیا گیا ہو۔
پشاور میں مقیم صحافی و تجزیہ کار لحاظ علی بھی طارق وحید کی رائے سے متفق ہیں۔ ان کے مطابق سہیل آفریدی کو اب اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ وہ خیبر سے رکن اسمبلی نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ ہیں ہے اور ان سے ذمہ دار بیان کی توقع کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے فوجی آپریشنوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رپورٹ کیں لیکن انہوں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا جس کا الزام سہیل آفریدی نے لگایا اور ثبوت بھی پیش نہیں کیا۔
لحاظ علی کا کہنا تھا کہ ’سہیل آفریدی کو وفاق سے ٹکراؤ کی بجائے بات چیت کے ذریعے معاملات بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور خاص طور پر سکیورٹیمعاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ سہیل آفریدی اگر ایسے بیانات دیں گے تو ظاہر ہے کہ اس کا رد عمل آئے گا اور سہیل آفریدی اگر چار کروڑ عوام کے نمائندہ ہیں تو انہیں بھی معاملات بہتر انداز میں نمٹانے کی ضرورت ہے۔