کیا سہیل آفریدی پی ٹی آئی کی پرانی جارحانہ سیاست واپس لا سکیں گے؟

تجزیہ کاروں کی رائے میں ’خیبرپختونخوا کے نئے نامزد وزیراعلیٰ میں تجربے کی کمی وفاق کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ کے سلسلے میں بڑا چیلنج ہو گی۔‘

خیبرپختونخوا کے نئے نامزد وزیراعلیٰ سہیل آفریدی ایک عوامی احتجاج کے دوران نعرہ لگا رہے ہیں (سہیل آفریدی فیس بک پیج)

صوبہ خیبر پختونخوا میں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئے نامزد وزیراعلیٰ محمد سہیل آفریدی انتظامی امور کا زیادہ تجربہ نہیں رکھتے اور وفاقی حکومت کے ساتھ ’ورکنگ ریلیشن شپ‘ ان کے لیے بڑا چیلنج ہو گا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان نے علی امین خان گنڈاپور کو وزارت اعلیٰ سے ہٹا کر سہیل آفریدی کو خیبر پختونخوا کا نیا وزیر اعلیٰ نامزد کردیا ہے۔

علی امین گنڈاپور نے اپنا استعفیٰ گورنر خیبر پختونخوا کو ارسال کر دیا، جس کی منظوری کے بعد نئے وزیراعلیٰ کا صوبائی اسمبلی میں انتخاب ہوگا۔

عمران خان کی جانب سے اس فیصلے کو مبصرین مختلف زاویوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ماضی میں پنجاب میں عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ نامزد کرنے پر عمران خان پر کڑی تنقید ہوئی تھی، مگر انہوں نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا تھا لیکن بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے پر علی امین کو ہٹایا گیا ہے۔

بعض مبصرین کے خیال میں گذشتہ دنوں پشاور سے پی ٹی آئی کی کارکن صنم جاوید کے مبینہ اغوا کا واقعہ بھی ان کی تبدیلی کی اہم وجہ بنا۔ لاہور کے علاقے اچھرہ سے تعلق رکھنے والی صنم جاوید پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم کی سرگرم کارکن ہیں۔ انہیں 9 مئی کے واقعات کے سلسلے میں اپریل میں ان کے شوہر سمیت گرفتار کیا گیا تھا، تاہم دو جولائی کو دونوں کی رہائی ہوئی تھی۔ 

پشاور میں پولیس کے حکام نے بتایا کہ ایف آئی آر پشاور کے تھانہ شرقی میں درج کی گئی، جس کے مطابق صنم جاوید کو 6 اکتوبر کو مبینہ طور پر اغوا کیا گیا۔ 

محمود جان بابر پی ٹی آئی کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’علی امین کا تجربہ تھا اور وہ وفاقی حکومت کے ساتھ چلنا جانتے تھے لیکن سہیل آفریدی ایک نیا بندہ ہو گا۔ ان کا تجربہ اتنا نہیں ہے۔ ان کا وفاق کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ بڑا چیلنج ہوگا۔‘

انہوں نے کہا کہ صوبے میں پرویز خٹک کے بعد پی ٹی آئی کا کوئی آزاد و خود مختار وزیراعلیٰ ابھی تک نہیں آیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ’پرویز خٹک بعض فیصلے خود کرنے کے بعد عمران خان کو بھی ناراض کر کے منا لیتے تھے لیکن علی امین ہوں یا سہیل آفریدی، سارے عمران خان کی ہدایات کے پابند رہے۔‘

اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کے حوالے سے محمود جان بابر نے بتایا: ’کسی بھی حکومت کو چلانے کے لیے ریاستی اداروں کے ساتھ چلنا پڑتا ہے اور حالات کو بہتر بنانا ہوتا ہے۔ ابھی تو سہیل آفریدی کے حلقے میں دہشت گردی کا مسئلہ ہے اور اس سے نمٹنا ایک بڑا چیلنج ہے۔‘

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ پارٹی کو دوبارہ جارحانہ مؤقف اختیار کرنے اور وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے علی امین کو ہٹایا گیا کیوں کہ علی امین کو اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھا جانے لگا تھا۔ ان کے عمران خان کی رہائی کے لیے مظاہروں کے دوران کردار پر بھی سنگین اعتراضات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔

عدنان شینواری زمانہ طالب علمی سے سہیل افریدی کے ساتھ آئی ایس ایف میں تھے اور اب بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔

عدنان کے مطابق سہیل آفریدی ’ایگریسیو بندہ‘ ہے اور شاید خیبر پختونخوا میں گلگت بلتستان کے خالد خورشید  ثابت ہوں گے جو نہایت جارحانہ تھے۔

عدنان شینواری نے بتایا، ’صوبے کے حالات کو دیکھتے ہوئے اور ایگریسیو ہوتے ہوئے سہیل آفریدی کے لیے چیلنجز بہت زیادہ ہوں گے لیکن مجھے امید ہے، وہ چیلنجز پر قابو پالیں گے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ طالب علمی کے زمانے میں انہوں نے مراد سعید کے شانہ بشانہ پی ٹی آئی کو مضبوط کرنے کے لیے بہت کوششیں کی ہیں اور اس وقت بھی عمران خان کی ہدایت پر عمل کرتے تھے اور آگے پیچھے کسی کی نہیں سنتے تھے اور نہ سوچتے تھے۔

پشاور میں مقیم صحافی و تجزیہ کار لحاظ علی کا خیال ہے کہ علی امین پر سب سے بڑا الزام یہ لگایا جاتا تھا کہ وہ پارٹی پالیسی پر عمل نہیں کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’علی امین کو پرو اسٹیبلشمنٹ سمجھا جاتا تھا اور پارٹی کی صوبائی قیادت ان سے خوش نہیں تھی جب کہ حالیہ دنوں میں علیمہ خان پر الزامات لگانے کی وجہ سے بھی پارٹی قیادت ان سے ناراض تھی۔‘

لحاظ علی کے مطابق اب سہیل آفریدی کو اسی وجہ سے لایا گیا کیوں کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ سہیل آفریدی ان ہی کی بات مانیں گے اور علی امین کی طرح نہیں ہوں گے۔

لحاظ علی کے مطابق: ’سہیل آفریدی کے ذریعے اب پی ٹی آئی کو دوبارہ مزید جارحانہ بنانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ وفاقی حکومت پر دباؤ کے ذریعے عمران خان کی رہائی ممکن بنائی جاسکے۔‘

پشاور میں مقیم صحافی و تجزیہ کار طارق وحید کا خیال ہے کہ ایک ہفتہ پہلے یہی تاثر دیا گیا کہ علی امین گنڈاپور پارٹی میں مضبوط حیثیت رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے عمران خان سے ملاقات کے بعد کابینہ کے بعض ارکان کو نکال دیا گیا۔

تاہم طارق وحید نے بتایا کہ ابھی جو فیصلہ سامنے آیا ہے، اس نے اس تاثر کو غلط ثابت کر دیا اور بھائی تک رسائی نے علیمہ خان کو مضبوط شخصیت بنا دیا۔

جہاں تک بات علی امین گنڈاپور کے اسٹیبلشمنٹ نواز ہونے کے الزام کی ہے، طارق وحید کا کہنا ہے کہ انہیں ایسا نہیں لگتا کیوں کہ بعض جگہوں پر انہوں نے مزاحمت بھی کی لیکن جہاں نہیں کر سکتے تھے، وہاں نہیں کی۔

طارق وحید نے کہا: ’باجوڑ آپریشن جیسے معاملات پر ان کے لیے مخالفت ممکن نہیں تھی کیوں کہ ریاستی معاملات پر وفاقی حکومت کے ساتھ چلنا پڑتا ہے لیکن دوسری جانب افغان پناہ گزینوں کی واپسی کی مہم پر انہوں نے کھل کر بتایا تھا کہ ایسا نہیں ہوگا۔‘

سہیل آفریدی کے حوالے سے طارق وحید نے بتایا کہ ان کے لیے مسائل ہوں گے کیوں کہ حکومتی معاملات جذبات سے نہیں بلکہ تحمل سے چلائے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’میں بذات خود یہ دیکھ رہا ہوں کہ پارٹی سہیل آفریدی کے آنے سے مزید بکھر جائے گی اور مسائل مزید بڑھیں گے اور ان کے لیے چیلنجز بھی زیادہ ہوں گے۔‘

چیلنجز کے حوالے سے طارق وحید نے کہا کہ جو چیلنجز علی امین کے لیے تھے، وہی سہیل آفریدی کے لیے بھی ہوں گے اور لوگوں کی یہی امیدیں ہوں گی کہ وہ دہشت گردی کے مسئلے کو کیسے حل کریں گے؟ ’سہیل آفریدی کو اسٹیبلشمنٹ اور وفاقی حکومت کے ساتھ چلنا پڑے گا اور دوسرا بڑا چیلنج عمران خان کی رہائی کا ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’مجھے نہیں لگتا کہ سہیل آفریدی یہ کام علی امین سے بہتر کر پائیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست