علی امین کے علیمہ خان پر الزامات: پی ٹی آئی کو کتنا سیاسی نقصان پہنچائیں گے؟

وزیر اعلیٰ ہاؤس سے جاری 12 منٹ طویل ویڈیو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ’عمران خان کو شکایت نہیں بلکہ پارٹی کی خاطر علیمہ خان کے بارے میں بتا دیا ہے۔‘

وزیر اعلیٰ حیبر پحتونخوا علی امین گنڈاپور 6 اگست 2025 کو پشاور میں سیاسی ریلی کی قیادت کرتے ہوئے (فائل فوٹو/ علی امین گنڈا پور/ فیس بک)

خیبر پحتونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈّا پور کا ایک اور ویڈیو پیغام سامنے آیا ہے جس میں اس بار انہوں نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی بہن علیمہ خان پر پارٹی کو ’تقسیم‘ اور ’ایسٹبلشمنٹ کی سہولت کاری‘ کے الزامات لگائے ہیں۔

علی امین گنڈاپور کی یہ ویڈیو 30 ستمبر کی رات جاری کی گئی ہے۔ اس ویڈیو سے پہلے 29 ستمبر کو انہوں نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی تھی اور ان کے مطابق اس ملاقات میں انہوں نے عمران خان کو بھی علیمہ خان کی جانب سے ’پارٹی کو تقسیم‘ کرنے کی سازشوں سے آگاہ کیا۔

وزیر اعلیٰ ہاؤس سے جاری 12 منٹ طویل ویڈیو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ’عمران خان کو شکایت نہیں بلکہ پارٹی کی خاطر علیمہ خان کے بارے میں بتا دیا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’عمران خان کو بتایا کہ پہلے بجٹ معاملے پر وی لاگرز کے ذریعے مجھے اور دیگر کابینہ کو غدار ٹھہرانے کی کوشش کی گئی اور اس کے بعد لاہور میں منعقدہ پارٹی اجلاس کے دوران بھی ایسا کیا گیا۔‘

گنڈاپور نے اس ویڈیو میں کہا کہ ’عمران خان کو بتایا ہے کہ علیمہ خان کی وجہ سے پارٹی میں تقسیم سے ان کی رہائی کی کوششیں نہیں ہو رہی ہیں، جبکہ علیمہ خان میرے خلاف باقاعدہ مہم چلا رہی ہیں۔‘

’ایسٹبلشمنٹ کی سہولت کاری‘ کے الزام کے حوالے سے علی امین کہتے ہیں کہ ’علیمہ خان کے بیٹے نو مئی کے موقع پر موجود تھے اور گرفتاری کے بعد ان کو تین دن بعد ضمانت مل گئی لیکن عمر ایوب سمیت باقی ورکرز موجود بھی نہیں تھے لیکن ان کو سزائیں ہوئیں۔

’ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) علیمہ خان کی سہولت کاری کر رہی ہے۔ علیمہ خان کی وجہ سے ہم متحد ہونے کے بجائے ایسٹبلشمنٹ کا مقصد پورا کر رہے ہیں۔‘

علی امین گنڈاپور کی ویڈیو اور الزامات سامنے آنے سے قبل 30 ستمبر ہی کو اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرے ہوئے علیمہ خان کا بھی کچھ ایسا ہی کہنا تھا کہ ’علی امین نے میرے بارے میں عمران خان کو بتایا ہے کہ میں ایم آئی کے لیے کام کر رہی ہوں۔‘

جبکہ علیمہ خان کے ہمراہ موجود پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں بلکہ علیمہ خان ہی ہیں جو پارٹی کا بیانیہ آگے پہنچا رہی ہیں اور ان کی آواز کو لوگ عمران خان کی آواز سمجھتے ہیں۔‘

بیرسٹر گوہر کے مطابق ’دو سال سے پارٹی چیئرمین ہوں اور ان دو سالوں میں کبھی بھی عمران خان کی بہنوں نے پارٹی معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ عمران خان کی بہنوں کو کسی ایجنسی کی حمایت حاصل ہو۔‘

پاکستان تحریک انصاف میں اختلافات کی قیاس آرائیاں اور خبریں تو طویل عرصے سامنے آتی رہی ہیں تاہم یہ چیزیں کھل کر پشاور میں 27 ستمبر کو ہونے والے جلسے میں دکھائی دیں۔

پشاور جلسے کے دوران علی امین گنڈاپور جب تقریر کے لیے سٹیج پر آئے تو کارکنان کی جانب سے ہلڑ بازی کی گئی اور ان کے خلاف نعرہ بازی بھی ہوئی۔

اس حوالے سے پی ٹی آئی پشاور کے صدر عرفان سلیم کی سربراہی میں جلسے کے بعد ایک اجلاس بھی منعقد کیا گیا اور جلسے میں ناقص انتظامات اور دیگر امور پر بات بھی کی گئی تھی۔

عرفان سلیم نے جلسے کے بعد ایکس پر لکھا تھا کہ ’‏محترم وزیر اعلیٰ صاحب آج جو کچھ بھی جلسے میں آپ کے ساتھ ہوا یہ جمہور کی آواز ہے۔ اس کو سنیے اور سوچیے کیونکہ یہ عوام آپ سے عمران خان کی ایسٹبلشڈ پالیسی اور بیانیے کی حقیقی ترجمانی اور عمل چاہتی ہے۔‘

انہوں نے لکھا ہے کہ ’میں نے 15 ستمبر کو ہی آپ (وزیر اعلیٰ) کے سامنے چند گزارشات رکھی تھیں اور آپ ان پر عمل کیجیے اور پھر اسی گراؤنڈ میں دوبارہ جلسہ رکھیے آپ آج کے جلسے کا الٹ دیکھیں گے۔‘

علی امین گنڈاپور کی جانب سے علیمہ خان پر لگائے گئے الزامات پر پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی اور پارٹی مینجمنٹ سیل کے سربراہ ارباب شیر علی نے کہتے ہیں کہ ’عوام عمران خان کو دیکھتی ہے اور عمران خان پر عوام کا اعتماد بحال ہے۔

’جہاں تک علیمہ خان کا تعلق ہے تو انہوں نے ہمیشہ اپنے بھائی عمران خان کی رہائی کی بات کی ہے اور پارٹی معاملات سے خود کو دور رکھا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ارباب شیر علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اپنے بھائی کے لیے آواز اٹھانا علیمہ خان کا حق ہے۔ بعض اوقات ان کا لہجہ بھی سخت ہوتا ہے لیکن وہ پارٹی کو یہی کہتی ہیں کہ آپ کا چیئرمین جیل میں ہے تو ان کی رہائی کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔‘

الزامات کے اس ماحول میں عوام کی قیادت پر اعتماد کے حوالے سے ارباب شیر علی نے کہا کہ ’عوام کے لیے عمران خان ہیں جبکہ صوبائی حکومت کی پرفارمنس عوام دیکھے گی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’صوبائی حکومت کی پرفارمنس کو دیکھ کر عوام فیصلہ کر سکتے ہیں لیکن جہاں تک پارٹی پر اعتماد کی بات ہے، تو عوام عمران خان پر یقین رکھتے ہیں اور باقی کون کیا کہتا ہے، عوام کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘

پارٹی معاملات پر مبصرین کیا کہتے ہیں؟

محمود جان بابر پشاور میں مقیم صحافی اور پی ٹی آئی کے سیاسی معاملات پر نظر رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں پی ٹی آئی میں آج کل اگر کوئی چیز واضح نظر آ رہی ہے تو وہ پارٹی میں ’تقسیم‘ ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی میں موجود تمام لوگ نام تو عمران خان کا استعمال کرتے ہیں اور یہی دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ عمران خان کے وفادار ہیں لیکن ’پس پردہ ہر کوئی اپنے مفاد‘ کے لیے کام کر رہا ہے۔

محمود جان بابر کا کہنا ہے کہ ’پارٹی میں ایک طرف علی امین آج کل سامنے ہیں جبکہ دوسری جانب ان کے مخالفین ہیں لیکن عمران خان کو جو بھی پہلے کچھ کہتا ہے تو اسی پر یقین کر لیتے ہیں۔

’تقسیم سے نقصان پارٹی کو یہی پہنچ رہا ہے کہ عمران خان کی رہائی کے لیے جو مہم ان کا مقصد ہے، اس سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

پشاور کے سینیئر صحافی و تجزیہ کار ارشد عزیز ملک سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے اختلافات اب قیادت سے ورکز تک آگئے اور اس کا ثبوت ’ہم حالیہ جلسے میں دیکھ چکے ہیں جب علی امین کے خلاف نعرے‘ لگائے گئے۔

ارشد عزیز ملک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دراصل پی ٹی آئی بطور پارٹی عمران خان کی رہائی کے لیے ایگریسیو اپروچ کی حامی ہے جبکہ علی امین بات چیت کے ذریعے معاملے کو حل کرنے کی کوشش میں ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اب دو اہم ورزا کے استعفے بھی مستقبل میں مسائل کھڑے کر سکتے ہیں کیونکہ دونوں کے پیچھے ایک گروپ موجود ہے جبکہ پہلے سے ہی ان کے علی امین سے اختلافات ہیں۔‘

تاہم دوسری جانب پشاور میں مقیم صحافی طارق وحید جو صوبے کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں، کا خیال ہے کہ موجودہ صورت حال میں پی ٹی آئی کی سٹریٹ پاور کو نقصان تو نہیں ہے لیکن مستقبل میں اگر اختلاقات بڑھتے ہیں تو ممکن ہے سٹریٹ پاور پر برے اثرات مرتب ہو جائیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس میں اہم بات یہ ہے کہ موجودہ وقت میں اگر پی ٹی آئی میں کوئی مضبوط بندا ہے تو وہ علی امین گنڈاپور ہی ہیں اور عمران خان نے ان پر اعتماد کا اظہار بھی کیا ہے۔‘

طارق وحید کا کہنا ہے کہ ’عمران خان سے ملاقات کے بعد دو اہم وزرا کو ہٹانا جو دونوں پارٹی مرکزی رہنماؤں کے رشتہ دار ہیں، یہی ثابت کرتا ہے کہ عمران خان کا گنڈاپور پر اعتماد بحال ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست