پی ٹی آئی کا پارلیمانی کمیٹیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کتنا فائدہ مند ہوگا؟

وقاص اکرم نے کہا ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ بانی پی ٹی آئی جیل میں ’سڑ‘ رہے ہوں اور اراکین کمیٹیوں کے چیئرمین بن کر مراعات کے مزے لیں۔

21 ستمبر 2024 کو لاہور کے مضافات میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان ریلی میں شریک (عارف علی/ اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ 51 اراکین قومی اسمبلی کے بعد 17 سینیٹرز نے بھی پارلیمان کی قائمہ کمیٹیوں سے استعفے دے دیے ہیں۔

سینیٹر علی ظفر نے جانچ پڑتال کے بعد گذشتہ روز استعفے سینیٹ سیکریٹریٹ میں جمع کروائے تھے۔

قومی اسمبلی ریکارڈ کے مطابق پی ٹی آئی کے 26 اراکین نے قومی اسمبلی کی کمیٹیوں سے استعفے جمع نہیں کروائے۔ البتہ پی ٹی آئی کے مرکزی ترجمان وقاص اکرم کے بقول ’جو استعفے رہ گئے وہ بھی جلد جمع کروا دیے جائیں گے۔‘

شیخ وقاص اکرم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’استعفے اس لیے دینے کی ہدایت کی گئی کیونکہ اراکین کمیٹیوں کے چیئرمین بن کر مراعات کے مزے لے رہیں اور پارٹی سربراہ جیل میں سڑ رہے ہیں۔ ان کی رہائی کے لیے جدوجہد یا حکومت پر دباؤ ڈالنے کا کسی کو خیال نہیں۔‘

عمران خان کی ہدایت پر تحریک انصاف کی جانب سے پہلے قومی اسمبلی اور اب سینیٹ کی کمیٹیوں سے استعفے جمع کروائے گئے ہیں۔

اس سے قبل بھی تحریک انصاف نواز شریف حکومت کے دوران قومی اسمبلی سے مستعفی ہوئی تھی لیکن بعد میں مذاکرات کے ذریعے ان کے استعفے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے واپس کر دیے تھے۔

پی ٹی آئی نے اس بار بھی سیاسی دباؤ بڑھانے کے لیے استعفوں کا سلسلہ شروع کیا ہے لیکن تجزیہ کاروں کے بقول اس بار پی ٹی آئی کو اس سے کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ پہلے صورت حال مختلف تھی لیکن موجودہ ’ہائبرڈ نظام‘  پارلیمانی طور پر مستحکم ہے۔

تاہم سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ابھی تمام ارکان کے استعفے موصول نہیں ہوئے۔ ہم اراکین اسمبلی کو کہتے ہیں پارلیمان میں مثبت کردار ادا کریں۔ استعفوں کے معاملے پر کوئی جلدی نہیں مشاورت سے کوشش کریں گے کہ استعفے واپس لے لیے جائیں۔‘

 اب استعفے کیوں دیے جا رہے ہیں؟

پارلیمانی امور چلانے کے لیے قائمہ کمیٹیوں کو خصوصی اختیار حاصل ہوتا ہے۔

مختلف محکموں اور شعبوں کے لیے بنائی جانے والی کمیٹیاں متعلقہ حکام کی کارکردگی جانچنے کا اختیار رکھتی ہیں جن کی سفارشات پر متعلقہ اداروں کے سربراہان کو عمل درآمد کرنا ہوتا ہے۔

ان قائمہ کمیٹیوں کے سربراہان کو خصوصی مراعات بھی حاصل ہوتی ہیں۔

قومی اسمبلی میں سب سے اہم پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ہوتی ہے جس کا کام حکومتی فنڈز کے استعمال اور احتساب کے عمل کو پرکھنا ہوتا ہے۔

قانونی طور پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ اپوزیشن کا رکن بنایا جاتا ہے۔

موجودہ اسمبلی میں پی ٹی آئی رہنما جنید اکبر اس کمیٹی کے چیئرمین تھے جنہوں نے استعفی جمع کروا دیا ہے۔

شیخ وقاص اکرم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ویسے بھی حکومت پارلیمانی کیمیٹوں کے فیصلوں کی بجائے اپنی مرضی سے ہی کام کر رہی ہے اور پارلیمان کو اہمیت نہیں دی جا رہی۔‘

انہوں نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے اراکین کے گھروں میں چھاپے اور گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ اسمبلی فلور پر بولنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ کمیٹیوں کو سپیکر خود ہدایات دے رہے ہیں۔ ایوانوں کا تقدس پامال کر دیا گیا ہے حتیٰ کے کسی بھی رکن کو پولیس ناجائز گرفتار کر لے تو اس کے پروٹیکشن آرڈر بھی جاری نہیں ہوتے۔‘

بقول وقاص اکرم: ’پہلے مرحلے میں ہم نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کمیٹیوں سے استعفوں کا آغاز کیا ہے۔ اگر صورت حال تبدیل نہ ہوئی تو ہم سینیٹ کی رکنیت یا قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفے دینے کا فیصلہ کر سکتے ہیں کیونکہ جعلی مینڈیٹ سے بننے والی اسمبلیوں کو قانون کے مطابق نہیں چلایا جا رہا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جب اسمبلی یا کمیٹیوں میں بات ہی نہیں سنی جا رہی تو ان کا حصہ رہنے کا کیا فائدہ ہے۔ حکومت اپنی مرضی کی قانون سازی کر رہی ہے اور اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے نے کہا کہ ’وفاق کے برعکس خیبر پختونخوا اسمبلی آئین وقانون کے مطابق چلائی جارہی ہے اس لیے وہاں پی ٹی آئی کا مستعفی ہونے کا نہ کوئی معاملہ زیر غور ہے اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز موجود ہے۔‘

استعفوں سے سیاسی مقصد پورے ہوسکتے ہیں؟

سیاسی تجزیہ کار وجاہت مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ماضی میں فوجی حکمرانوں ضیا الحق اور مشرف دور کے دوران بھی سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی غرض سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ایوانوں سے استعفوں کا راستہ اپنائے رکھا۔‘

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت اپوزیشن کے استعفوں سے حکومت وقت کا ٹھہرنا مشکل ہوجاتا تھا اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ غیر سیاسی قوتوں کی حمایت استعفے دینے والی اپوزیشن کے ساتھ ہوتی تھی۔ ایسے ہی نواز شریف کے دور حکومت میں جب طاقتور حلقے انہیں ہٹانا چاہتے تھے تو 2015-16 میں بھی پی ٹی آئی نے بطور اپوزیشن پارلیمان سے استعفے دیے تھے۔ جو بعد میں مذکرات کے بعد واپس لے لیے گئے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول وجاہت مسعود: ’اب ایسی صورت حال نہیں ہے کیونکہ موجودہ پارلیمان میں اپوزیشن کو اب غیر سیاسی قوتوں کی حمایت حاصل نہیں ہے بلکہ حکومت بھی کسی ایک جماعت کی نہیں بلکہ اسے ہائبرڈ نظام کہا جاسکتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ایسے نظام کو، جس میں موثر قوتوں کی حمایت شامل ہو، اپوزیشن کے کمیٹیوں یا حتی کہ پارلیمان کی رکنیت سے بھی مستعفی ہونے کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ پی ٹی آئی کے استعفوں سے حکومت مزید پرسکون ہوجائے گی۔‘

تجزیہ کار حسن عسکری بھی وجاہت مسعود کی بات سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے حسن عسکری نے کہا کہ ’تحریک انصاف کے سینیٹ یا قومی اسمبلی کی کمیٹیوں سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ پہلے بھی جمہوری تقاضوں کے مطابق ایوان کا کردار دکھائی نہیں دیتا اور حکومت جیسے بھی اپنی عددی طاقت حاصل کر چکی ہے وہ اس کے لیے کافی ہے۔‘

ان کے بقول: ’اپوزیشن کا کردار تو ویسے بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا کمیٹیوں سے ویسے بھی حکومتیں مرضی کے ہی کام لیتی ہیں لیکن اگر پی ٹی آئی سینیٹ اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے ہی استعفے دے دیتی ہے تو اس سے نطام پر سوال ضرور اٹھیں گے۔‘

حسن عسکری کا کہنا تھا: ’پی ٹی آئی کی کمیٹیوں سے استعفوں کی مہم سے انہیں سیاسی مقاصد حاصل نہیں ہوں گے سوائے اس کے کہ انہیں کچھ دن سیاسی بیانات اورخطابات کرنے کا موقع مل جائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست