پی ٹی آئی کا بند گلی سے نکلنے کا روڈ میپ

نو مئی اور 26 نومبر کے بعد پی ٹی آئی کی حکمت عملی تبدیل ہوتی، رویوں میں نرمی آتی، غلطیوں کا اعتراف ہوتا، پارٹی سنجیدہ سیاسی جدوجہد کرتی، ایک گرینڈ اپوزیشن الائنس بناتی، اس سب کچھ کی بجائے لڑائیوں میں الجھ گئی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامی 5 اگست 2025 کو کراچی میں جیل میں بند سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرنے والے احتجاج کے دوران مارچ کر رہے ہیں (آصف حسن / اے ایف پی)

اب تو تحریک انصاف کی سیاست اور بند گلی کا چلو دامن کا ساتھ بن چکا ہے لیکن گذشتہ دو برس سے اپنے کالموں میں بار بار تحریر کر رہا ہوں کہ ایک مقبول سیاسی جماعت اپنے غلط سیاسی فیصلوں اور ناقص حکمت عملی کے باعث خود کو بند گلی میں دھکیل رہی ہے۔

خیر اب ان فیصلوں اور حکمت عملیوں پر کیا تبصرہ کرنا جب گلی اور دروازہ مکمل بند ہو چکے ہیں۔ 26 نومبر کے بعد پارٹی اٹھنے کے قابل نہیں رہی، کارکنان کا قیادت پر سے اعتماد جو اٹھ چکا تھا اب تو ٹوٹ ہی چکا ہے۔ ایک صوبے میں حکومت ہے جس کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو پارٹی کے اندر اسٹیبلیشمنٹ کا نمائندہ سمجھا اور پکارا جاتا ہے۔ نو مئی نے تحریک انصاف کو کمزور کیا، پارٹی نے ریاست کو ایک ایسا موقع فراہم کر دیا جس کے پی ٹی آئی کے مخالفین متلاشی تھے۔

اس کے بعد 26 نومبر نے پارٹی میں رہی سہی جان بھی نکال ہی دی۔ لیکن بجائے اس کے کہ ان دو واقعات کے بعد تحریک انصاف کی حکمت عملی تبدیل ہوتی، رویوں میں نرمی آتی، غلطیوں کا اعتراف ہوتا، پارٹی سنجیدہ سیاسی جدوجہد کرتی، ایک گرینڈ اپوزیشن الائنس بناتی، اس سب کچھ کی بجائے لڑائیوں میں الجھ گئی۔

فائنل کال، پھر ایک اور فائنل اور پھر سپر فائنل کال۔ لیکن اب تحریک انصاف کا ورکر موجودہ قیادت کے ساتھ باہر نکلنے کے لیے نہیں تیار۔ پارٹی کے اندر لڑائی، علی امین، جنید اکبر اور عاطف خان سے لڑنے میں مصروف، خیبر پختونخوا کی قیادت پنجاب پر کچھ نہ کرنے کے الزامات میں مصروف، سلمان اکرم راجہ، بیرسٹر گوہر سے لڑنے میں مصروف۔ پارٹی سے باہر اسٹیبلیشمنٹ سے لڑائی، حکومت سے لڑائی تو کرنی ہی ہے اپوزیشن سے بھی لڑائی۔

ایک دن جا کر مولانا فضل الرحمٰن کو اپوزیشن الائنس کی دعوت دیتے ہیں، دوسرے دن علی امین ان کے خلاف بیان داغ دیتے ہیں۔ ایک سیاسی جماعت چاہے کتنی بھی مقبول کیوں نہ ہو اگر وہ خود سے اور سب سے لڑتی ہی رہے گی تو کیا خود کو بند گلی میں خود ہی نہیں چنوائےگی؟

اب نو مئی کے مقدمات میں تیزی سے سزائیں اور اراکین اسمبلی کی نااہلیاں شروع ہو چکی ہیں۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی دونوں کے اپوزیشن رہنما نااہل ہو چکے ہیں۔ یہ سزائیں مزید تیزی سے بڑھیں گی اور شاید تحریک انصاف کے بیسیوں ارکان پارلیمان اپنی نشستوں سے محروم ہو جائیں۔

سونے پر سہاگہ تحریک انصاف نے ان نشستوں میں الیکشن نہ لڑنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ یہ حکمت عملی پی ٹی آئی کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنے گی۔ میدان اگر کھلا چھوڑ دیا تو ظاہری بات ہے ن لیگ کے لیے یہ نشستیں حاصل کرنا انتہائی آسان ہو جائے گا۔

آٹھ فروری کے انتخابات میں تحریک انصاف کے پاس انتخابی نشان نہیں تھا پارٹی قیادت جیلوں میں تھی لیکن پارٹی کسی نہ کسی صورت میدان میں موجود رہی تو پھر نتائج سے ایک سرپرائز بھی ملا۔ جس تیزی سے پی ٹی آئی کے اراکین نااہل ہو رہے ہیں شاید پارٹی قائدِ حزبِ اختلاف کا عہدہ بھی کھو دے (میری یہ تحریر اپنے پاس محفوظ رکھیے گا)۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ابھی بھی اگر شاہ محمود قریشی بری ہونے کے بعد جیل سے باہر آ جاتے ہیں اور عمران خان انہیں پارٹی قیادت سونپ کر ان کی سیاسی حکمت عملی کو اپنا لیتے ہیں تو یقین مانیے پی ٹی آئی اپنے لئے بند گلیاں اور دروازے کھولنے کا آغاز کر سکتی ہے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسا ہو گا نہیں، کیونکہ عمران خان اپنے سینیئر وائس چیئرمین اور وفادار ساتھی جو ان کے لیے ابھی تک جیل کاٹ رہے ہیں پر وہ اعتماد اور بھروسہ نہیں کرتے جو کسی زمانے میں کرتے تھے۔

خان صاحب اس بات کا اظہار جیل میں کچھ پارٹی رہنماؤں سے برملا کر چکے ہیں۔ دوسری جانب شاہ محمود قریشی کو یہ گلہ رہا کہ دوران اسیری انہیں بانی پی ٹی آئی نے پیغام تک نہ بھیجا نہ پارٹی رہنماؤں نے ان سے ملاقاتیں کیں نہ ان کی اس طرح سے خیریت دریافت کی جسطرح سے بطور پارٹی کے سینیئر رہنما کرنی چاہیے تھی۔

اس وقت تحریک انصاف کو اگر اس گرداب سے نکلنا ہے تو اس کا بہترین حل یہی ہے کہ انتخابات میں حصہ لے۔ شاہ محمود قریشی اگر بری ہوتے ہیں تو انہیں قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف بنا دیں۔

لیکن مشکلات ختم کرنے لیے بہترین حکمت عملی اختیار کرنے کے آغاز میں پہلا اعلان یوم آزادی پر احتجاج کی کال واپس لینا ہو گا۔ جس دن پورا پاکستان سڑکوں پر آزادی کا جشن منا رہا ہو گا اور آپ احتجاج کی کال دے دیں تو اس سے تاثر یہی جاتا ہے کہ کچھ لوگ ابھی بھی معاملات تصادم کی طرف لے کر جانا چاہتے ہیں۔

لاکھوں لوگ سڑکوں پر ہوں گے اور اس دوران مظاہروں کی وجہ سے لوگوں کی آپس میں محاذ آرائی کا ماحول بھی بن سکتا ہے۔ خدانخواستہ کیا آپ ایک اور نو مئی چاہتے ہیں؟

خود تحریک انصاف کے اندر بیرسٹر علی ظفر جیسی مدبر اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی آوازیں 14 اگست کو احتجاج کی کال کے حق میں نہیں۔

خبریں تو ایسی آ رہی ہیں کہ شاید یہ تاریخ تبدیل کر دی جائے گی لیکن اگر تبدیل نہ ہوئی تو اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ پارٹی کی مشکلات مزید بڑھیں گی جس کی اس وقت پی ٹی آئی متحمل نہیں ہو سکتی۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر