پشاور ہائی کورٹ: گورنر کے پی مخصوص نشستوں پر اراکین سے حلف لینے کے لیے نامزد

پشاور ہائی کورٹ نے گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کو صوبائی اسمبلی کی 25 مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کا حلف لینے کے لیے نامزد کر دیا۔

28 فروری 2024 کو پشاور میں نومنتخب اراکین پاکستان کی خیبرپختونخوا اسمبلی میں حلف اٹھا رہے ہیں (اے ایف پی)

پشاور ہائی کورٹ نے اتوار کے روز گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کو صوبائی اسمبلی کی 25 مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کا حلف لینے کے لیے نامزد کر دیا۔

دوسری جانب صوبائی اسمبلی کے سپیکر بابر سلیم سواتی نے آج کورم ٹوٹنے کی وجہ سے اجلاس ملتوی کر دیا، جس کے باعث حلف برداری نہ ہو سکی اور خدشہ پیدا ہو گیا کہ کل (پیر کو) سینیٹ الیکشن ملتوی ہو جائے۔

مخصوص نشستوں میں منتخب اراکین نے گذشتہ ہفتے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست جمع کروائی تھی کہ ان کا حلف لینے کے لیے عدالت کسی کو نامزد کرے۔ 

پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے اتوار کو اس درخواست پر سماعت کی، جہاں درخواست گزاروں کے وکیل عامر جاوید نے استدعا کی کہ ہائی کورٹ نے گذشتہ سال مخصوص نشستوں پر آنے والے اراکین سے حلف لینے کا حکم دیا تھا لیکن ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا۔

جس کے بعد ہائی کورٹ نے مخصوص نشستوں پر آنے والے اراکین سے حلف لینے کے لیے گورنر کو نامزد کردیا۔ عدالتی مراسلے کے مطابق اراکین سے آئینی تقاضوں کے مطابق جلد از جلد حلف لیا جائے۔

صوبائی اسمبلی کا اجلاس

اس سے قبل آج صوبائی اسمبلی کا اجلاس تقریباً ڈھائی گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا۔ اجلاس شروع ہوتے ہی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک رکن شیر علی آفریدی نے کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی کی، جس پر سپیکر اسمبلی بابر سلیم سواتی نے اراکین کی گنتی کے احکامات جاری کیے۔

گنتی پر اجلاس میں صرف 25 اراکین کی موجودگی پائی گئی، جن میں پی ٹی آئی کے چار اراکین شامل تھے۔ جس کے بعد سپیکر نے اجلاس 24 جولائی کی دوپہر دو بجے تک ملتوی کر دیا۔

اجلاس ملتوی ہونے کے بعد اپوزیشن رہنما ڈاکٹر عباد اللہ نے میڈیا سے گفتگو میں مخصوص نشستوں پر اراکین کا حلف نہ لینے کو ’غیر آئینی‘ اور ’غیر قانونی‘ قرار دیتے ہوئے بتایا کہ وہ آج ہی اس معاملے پر پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کریں گے۔

عام انتخابات کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد صوبائی اسمبلی میں آج اپوزیشن جماعتوں کی 21 خواتین اور چار اقلیتی نمائندوں کی حلف بردارری ہونا تھی، جس کے بعد کل سینیٹ کی 11 نشستوں پر الیکشن شیڈول تھے۔

اگرچہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، تاہم مخصوص نشستوں پر ان کی دعوے داری الیکشن کمیشن نے مسترد کر دی تھی۔

بعد ازاں یہ نشستیں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی اور پی ٹی آئی-پارلیمنٹرینز میں تقسیم کی گئیں۔

پرویز خٹک کی قیادت میں پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو کُل 25 مخصوص نشستیں ملی ہیں۔

حلف برداری کے بعد کل 145 رکنِ اسمبلی کی تعداد مکمل ہو جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سینیٹ انتخابات کے لیے حکومتی اور اپوزیشن اتحاد کے درمیان چھ اور پانچ نشستوں کی تقسیم پر اتفاق ہو چکا ہے۔

تاہم پی ٹی آئی کے بعض ناراض کارکنان پارٹی قیادت کے فیصلے سے نالاں ہیں اور آزاد حیثیت میں انتخابات لڑنے پر بضد ہیں۔

پی ٹی آئی پشاور کے صدر عرفان سلیم اور امیدوار عائشہ بانو سمیت کئی رہنماؤں نے ہفتے کو ویڈیوز جاری کر کے سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کے عزم کا اظہار کیا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں نظریاتی کارکنوں کو نظرانداز کیا گیا۔

پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ پی ٹی آئی کے اراکین سپریم کورٹ کی مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد سنی اتحاد کونسل کے اراکین ہیں اور کسی بھی پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے بتایا تھا کہ پی ٹی آئی کے اراکین یہ نہ سمجھیں کہ وہ آزاد ہیں۔

جنرل نشست جیتنے کے لیے 18 سے 19 اراکین کے ووٹ درکار ہوتے ہیں اور اس حساب سے پی ٹی آئی پانچ نشستیں باآسانی جیت سکتی ہے۔ 

خواتین کی دونوں نشستیں بھی وہ جیت سکتی ہے اگر ووٹنگ دوسرے یا تیسرے مرحلے میں چلی جائے کیونکہ خواتین کی نشست جیتنے کے لیے 49 اراکین کے ووٹ درکار ہیں، لیکن پولنگ میں پہلی دو جماعتیں جتنے زیادہ ووٹ لیں گی، وہ کامیاب تصور ہو جائیں گی۔

حزبِ اختلاف کے 52 اراکین مل کر دو جنرل اور ایک خاتون نشست حاصل کر سکتے ہیں۔

تاہم اگر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین حزب اختلاف کو ووٹ دیتے ہیں تو نتائج میں رد و بدل ہو سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست