حکومت پاکستان نے بدھ کو انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’وہ سنجیدگی سے حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عمران خان کو دوسری جیل منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔‘
اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس میں بات کرتے ہوئے حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے پارلیمانی سیکرٹری اطلاعات و نشریات بیرسٹر دانیال چوہدری نے کہا کہ ’اڈیالہ جیل میں 8000 قیدی ہیں اور پی ٹی آئی کے احتجاج اور ملاقاتوں کی وجہ سے ان قیدیوں کی روز مرہ معاملات میں مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
پارلیمانی سیکرٹری نے افسوس کا اظہار کیا کہ ’عمران خان کے ساتھیوں نے ایک طرح سے اڈیالہ جیل کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ ایک قیدی کی وجہ سے 8000 قیدیوں کے مسائل میں اضافہ نہیں کر سکتے۔
’اس لیے اگر رویہ تبدیل نہیں ہوتا اور آئے روزہ جیل کے باہر دھرنا ہوتا ہے تو حکومت کو کچھ کرنا پڑے گا۔‘
وزیر مملکت طلال چوہدری بھی ایک حالیہ بیان میں کہہ چکے ہیں کہ ’پی ٹی آئی رہنما اڈیالہ کے باہر تماشا کریں گے، جیل میں قید دوسرے قیدیوں کے لیے خطرہ بنیں گے تو ایک قیدی کو منتقل کردیا جائے گا۔‘
عمران خان جیل میں
عمران خان کو پانچ اگست 2023 کو گرفتاری کے بعد ابتدائی طور پر اٹک جیل میں رکھا گیا تھا، جہاں محدود سہولتوں کے باعث سابق وزیر اعظم نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور اڈیالہ جیل منتقلی کی استدعا کی۔
ان کے وکلا نے موقف اختیار کیا کہ عمران خان کو سابق وزیراعظم کے سٹیٹس اور جیل قواعد کے مطابق سہولیات میسر ہونا چاہیے۔
چھ ہفتے اٹک جیل گزارنے کے بعد بانی پی ٹی آئی کو 23 ستمبر 2023 کے عدالتی حکم پر اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔
پی ٹی آئی کا موقف
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما و رکن اسمبلی بیرسٹر عمیر نیازی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ڈرایا جا رہا ہے کہ بلوچستان میں بھی ایک مقدمہ ہے تو اس کی بنیاد پر عمران خان کو مچھ جیل میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔
’لیکن کہنا بہت آسان ہے کرنا بہت مشکل ہے جہاں سکیورٹی کے مسائل ہیں، جہاں ایف سی پر حملے ہو رہے ہیں تو کیا وہاں آپ عمران خان کو رکھ سکتے ہیں؟ دوسری بات یہ کہ عمران خان لاوارث تو نہیں وہ سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا حکومت قانونی طور پر قیدی کی جیل تبدیل کر سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں بیرسٹر عمیر نیازی نے کہا کہ ’جیل مینول میں ہے کہ اگر ایک عدالت سے دوسری عدالت کی حدود میں مقدمہ ہے تو جیل تبدیل کی جا سکتی ہے۔ لیکن ایسا ہونے پر ہم اس کو چیلنج بھی کر سکتے ہیں۔‘
پاکستان کی مشہور جیلیں
پاکستان میں 100 سے زیادہ جیلیں ہیں جن میں مشہور اٹک جیل، کوٹ لکھپت جیل اور اڈیالہ وہ جیلیں ہیں جہاں سیاسی قیدیوں کو رکھا جاتا رہا ہے۔
پاکستان کی جبکہ خطرناک جیلوں میں مچھ جیل کا نام سرفہرست ہے، جس پر 2024 میں عسکریت پسندوں نے حملہ بھی کیا تھا۔
اس کے علاوہ کراچی کی ملیر جیل اور سینٹرل جیل کا شمار بھی مشکل جیلوں میں ہوتا ہے۔
وفاقی دارالحکومت کے سیکٹر ایچ 16 میں واقع اسلام آباد ماڈل جیل بھی آپریشنل ہونے کے حتمی مراحل میں ہے۔
فیڈرل پرزن آف پاکستان کے پہلے سینئر سپرٹینڈنٹ آف پرزنز ایس ایس پی علی اکبر کو تعینات کر دیا گیا ہے۔
ترجمان اسلام آباد پولیس تقی جواد کا کہنا ہے کہ ’جیل آپریشنل ہونے کے بعد اسلام آباد کے تمام قیدی یہیں رہیں گے۔ آئندہ اسلام آباد کے مقدمات کے ملزمان کو دوسرے اضلاع میں بھیجنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘