راولپنڈی میں واقع اڈیالہ جیل کے حکام نے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی جیل سے منتقلی اور صحت سے متعلق افواہوں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے بدھ کو کہا ہے کہ وہ ’اڈیالہ جیل میں موجود‘ اور ’مکمل طور پر صحت یاب ہیں۔‘
عمران خان اگست 2023 سے جیل میں ہیں۔ انہیں متعدد مقدمات میں سزا سنائی گئی جنہیں ان کے حامی وسیع طور پر سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے مقدمات قرار دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما مسلسل جیل میں ان کی صحت اور قانونی مشیروں اور خاندان تک محدود رسائی پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رواں ہفتے عمران خان کی اڈیالہ جیل سے منتقلی اور صحت سے متعلق افواہیں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں، جنہیں انڈین میڈیا نے خاص طور پر اجاگر کرتے ہوئے جیل میں ان کی مبینہ موت کی خبریں بھی شائع کیں۔
اسی تناظر میں اڈیالہ جیل حکام کی جانب سے بدھ کی شب جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ بانی پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل سے منتقل کرنے کی خبر میں کوئی صداقت نہیں۔ ’بانی پی ٹی آئی اڈیالہ جیل میں موجود اور صحت یاب ہیں۔‘
دوسری جانب پی ٹی آئی نے عمران خان کی خیریت سے متعلق انڈین اور افغان میڈیا پر چلنے والی افواہوں کے ردعمل میں مطالبہ کیا کہ حکومتِ وقت اور وزارتِ داخلہ اس افواہ کی فوری اور واضح تردید اور وضاحت کرے اور فوری طور پر عمران خان کی ان کے اہل خانہ سے ملاقات کروائی جائے۔
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی شعبہ اطلاعات کی جانب سے جمعرات کو جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ’چیئرمین عمران خان کی صحت، سلامتی اور موجودہ حیثیت کے بارے میں سرکاری سطح پر شفاف اور باضابطہ بیان جاری کیا جائے اور اس طرح کی خطرناک اور حساس نوعیت کی افواہوں کے پھیلاؤ کے محرکین کی تحقیقات کر کے حقائق قوم کے سامنے رکھے جائیں۔‘
مزید کہا گیا کہ ’قوم اپنے قائد کے بارے میں کسی بھی طرح کی غیر یقینی یا ابہام کو برداشت نہیں کرے گی۔ عمران خان کی سلامتی، بنیادی انسانی حقوق اور آئینی تقاضوں کی حفاظت حکومت کی براہِ راست ذمہ داری ہے۔‘
پی ٹی آئی اور جیل حکام کے موقف کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔
یہ قیاس آرائیاں ایک ایسے وقت میں ہوئیں جب منگل کو عمران خان کی بہنوں علیمہ خان اور نورین نیازی کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے بانی پی ٹی آئی سے اہل خانہ کی جیل میں ملاقات نہ کروائے جانے کے خلاف احتجاجاً اڈیالہ جیل کے کچھ فاصلے پر گورکھپور کے مقام پر کئی گھنٹوں تک دھرنا دیا، تاہم انتظامیہ کی جانب سے آئندہ ہفتے ملاقات کی یقین دہانی کے بعد رات گئے دھرنا ختم کر دیا گیا تھا۔
عمران خان سے ملاقات کے لیے بہنوں کا پی ٹی آئی کارکنوں کے ہمراہ اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج pic.twitter.com/p5X2taXsI0
— Independent Urdu (@indyurdu) November 25, 2025
اسی دوران منگل کی شب سوشل میڈیا پر اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی مبینہ موت سے معتلق خبریں گردش کرنے لگیں، جس نے پاکستان بھر میں شدید غم و غصے اور بے چینی کی فضا پیدا کر دی۔
دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما سید ذوالفقار بخاری (زلفی بخاری) نے سوشل میڈیا پر گردش کرتی خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر واقعی عمران خان کو اڈیالہ جیل سے منتقل کر دیا گیا ہے تو ان کے خاندان کو فوراً اور بلا رکاوٹ رسائی دی جانا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’قانونی اور انسانی اصولوں کے تحت کسی بھی قیدی کے اہلِ خانہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کی موجودہ جگہ سے باخبر ہوں اور بلا تاخیر اس سے ملاقات کر سکیں۔‘
بقول زلفی بخاری، عمران خان کے مقام سے متعلق کسی بھی قسم کا ’ابہام اور ملاقاتوں سے مسلسل انکار شفافیت، قانونی عمل اور بنیادی حقوق‘ کو مزید نقصان پہنچا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کے وکلا کی جانب سے اس سے قبل بھی شکایات سامنے آ چکی ہیں کہ موجودہ جیل حالات میں بھی انہیں بعض بنیادی سہولتوں، مثلاً ملاقاتوں، رابطے، میڈیا تک رسائی اور طبی مدد سے محروم رکھا جا رہا ہے، حالانکہ وہ سابق وزیراعظم رہ چکے ہیں۔
بقول زلفی بخاری: ’اگر ان کی منتقلی کسی ایسے ’خصوصی‘ مقام پر کی گئی ہے جہاں سکیورٹی پروٹوکول زیادہ سخت ہوں یا قیدیوں تک رسائی زیادہ محدود ہو، تو اس سے حراست میں موجود ایک شخص کے ساتھ منصفانہ سلوک، خاندان اور وکلا سے رابطے، حتیٰ کہ ذاتی معالج سے ملاقات (جس تک رسائی بھی محدود کی گئی ہے) جیسے حقوق کے بارے میں خدشات مزید گہرے ہو جاتے ہیں۔‘