اڈیالہ جیل کے باہر دھرنا دینے والوں پر واٹر کیننز استعمال کی گئیں: پی ٹی آئی

پی ٹی آئی نے کہا کہ اڈیالہ جیل کے باہر عمران خان سے ملاقات کے خواہش مند افراد، جن میں ان کی بہنیں بھی شامل تھیں، پر واٹر کیننز کے ذریعے پانی پھینکا۔

9 دسمبر 2025 کی اس تصویر میں پانی پی ٹی آئی عمران خان کی بہنوں کو اڈیالہ جیل کے باہر دیکھا جا سکتا ہے (پی ٹی آئی ایکس اکاؤنٹ)

پی ٹی آئی نے بدھ کو علی الصبح ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا ہے کہ حکام نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر سابق وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے خواہش مند افراد، جن میں ان کی بہنیں بھی شامل تھیں، کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کیننز کا استعمال کرتے ہوئے ان پر پانی پھینکا، تاہم حکام کی جانب سے اس حوالے سے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

عمران خان کی بہنیں اور بڑی تعداد میں پی ٹی آئی ورکرز سابق وزیر اعظم سے ملاقات کی اجازت نہ دیے جانے کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر دھرنا دے رہے تھے۔

پی ٹی آئی کے ایکس اکاؤنٹ پر صبح تین بجکر 58 منٹ پر لگائی گئی ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ ’ایک پرامن دھرنے پر یہ ظالمانہ کریک ڈاؤن بنیادی انسانی حقوق اور سرد موسم میں اجتماع کی آزادی کی خلاف ورزی ہے!‘  

اس پوسٹ میں واٹر کینن کے استعمال کی ایک ویڈیو بھی شیئر کی گئی، جس میں پانی پھینکے جانے کے بعد لوگوں کو بھاگتے دیکھا جا سکتا ہے۔ 

ایک الگ پوسٹ میں پی ٹی آئی نے کہا کہ عمران کے خاندان کو جان بوجھ کر ان سے ملنے سے روکا گیا، جس کی وجہ سے دھرنا دیا گیا۔

پوسٹ میں مزید کہا گیا کہ ’واٹر کینن کا استعمال نہ صرف عمران خان کے قیدیوں کے حقوق کی بے شرمی سے خلاف ورزی ہے بلکہ حکومت کے مظالم کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگوں کے آئینی حقوق پر صریحاً حملہ ہے۔‘

پی ٹی آئی کی پوسٹ میں لکھا گیا کہ ’بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور جمہوریت کے علمبرداروں کو پاکستان میں اس طرح کے غیر انسانی اور آمرانہ اقدامات کے سامنے خاموش نہیں رہنا چاہیے۔‘

عمران کی بہن علیمہ خان کی قیادت میں دھرنا منگل (9 دسمبر) کو جیل کے باہر اس وقت دیا گیا جب انہیں ایک بار پھر سابق وزیراعظم سے ملاقات کی اجازت نہ دی گئی۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ اور پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے صوبائی صدر جنید اکبر خان سمیت پارٹی کے سینیئر ارکان بھی مظاہرے میں شامل ہوئے تھے۔

پولیس نے عمران خان کی بہنوں سے دو بار رابطہ کیا اور انہیں جانے کا مشورہ دیا۔ بعد ازاں پولیس کی بھاری نفری جائے وقوعہ پر تعینات کردی گئی تھی۔

پی ٹی آئی کارکنوں نے جماعت کے بانی سے ملنے کی متعدد کوششیں کیں لیکن جیل حکام کی جانب سے ہر بار انہیں انکار کیا گیا۔

گذشتہ ہفتے حکام نے عمران خان کی بہن عظمیٰ خان کو اپنے بھائی سے ملنے کی اجازت دی تھی۔ جیل سے باہر آ کر عظمیٰ خان نے کہا تھا کہ وہ ’بالکل ٹھیک‘ ہیں۔

منگل کو جیل جاتے ہوئے ویڈیو بیانات میں علیمہ خان نے دعویٰ کیا کہ ریاست قانون کی خلاف ورزی کر رہی ہے، جبکہ پی ٹی آئی نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔

’اگر وہ غیر قانونی طور پر کام کرتے ہیں اور ہم اپنا کام قانون کے مطابق کرتے ہیں اور اگر وہ صحیح ہیں اور ہم غلط ہیں، تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا نظام کیسے کام کرتا ہے۔‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کو گذشتہ 14 ماہ سے ان کے ذاتی معالج سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’ایک ڈاکٹر کو عمران خان سے ملنے میں کیا حرج ہے؟ جب نواز شریف جیل گئے تو ایک ڈاکٹر سارا دن ان کے ساتھ تھا اور ان کے پلیٹ لیٹس گن رہا تھا۔ 

’یہ کس قسم کا نظام ہے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بعد علیمہ خان اپنی گاڑی سے باہر نکلیں اور اڈیالہ جیل کی طرف چلنے لگیں۔ ان کے ساتھ پارٹی کے ارکان اور حامیوں کا ایک بڑا ہجوم تھا۔ وہ اڈیالہ روڈ پر واقع گورکھپور مارکیٹ میں پہنچیں، جو جیل سے تقریباً ایک کلومیٹر جنوب مغرب میں ہے اور جہاں انہیں پولیس نے روک لیا۔  

پولیس بیریکیڈ پر بیٹھ کر علیمہ خان نے ویڈیو پر ایک اور بیان دیا، جس میں انہوں نے کہا کہ ’یہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے، وہ عمران خان کو الگ تھلگ اور ٹارچر کیوں کر رہے ہیں؟

’یہ لوگ آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور قانون کو توڑ رہے ہیں۔‘

علیمہ خان نے مزید کہا کہ ’ہم یہاں سے نہیں ہٹیں گے، وہ ہمیں لاٹھیوں سے مار سکتے ہیں یا گولی مار سکتے ہیں۔ جو مرضی کرو۔‘

پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے اڈیالہ جیل کے قریب صحافیوں سے بات کی اور حکام پر زور دیا کہ وہ عمران خان سے ملاقات کی اجازت دیں۔

انہوں نے کہا کہ ’اس سے صورت حال میں بہتری آئے گی۔‘

گوہر خان نے کہا کہ ’ہمیں یہاں آنے کا حق ہے اور عدالت کا حکم ہے کہ ہمیں یہاں آنے کی اجازت دی جائے۔

’ہمارے پاس ایک معاہدہ اور رضامندی کا حکم تھا کہ خاندان اور قانونی مشیر ان (عمران) سے مل سکتے ہیں، لیکن آج بھی، ہمیں روک دیا گیا ہے۔‘

بعدازاں وہ بانی پی ٹی آئی سے ملے بغیر ہی وہاں سے چلے گئے تھے۔  

گذشتہ منگل کو عظمیٰ خان کے ساتھ پی ٹی آئی کے متعدد حامی بھی موجود تھے جو جیل کے باہر جمع تھے۔

ملاقات کے بعد انہوں نے عمران کی جانب سے ریمارکس دیے، جو بعد میں ان کے ایکس اکاؤنٹ پر پوسٹ کیے گئے، جن میں فیلڈ مارشل عاصم منیر پر تنقید کی گئی تھی۔

اس سے اگلے ہی روز فوج کے ترجمان کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا تھا، جس میں عمران خان کو ’ذہنی طور پر بیمار‘ اور ’نشہ باز‘ قرار دیا تھا۔

جمعرات کو وفاقی حکومت نے جیل قواعد کی مبینہ خلاف ورزیوں پر عظمیٰ خان اور دیگر کو عمران سے ملنے سے روک دیا تھا۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’(جیل) قوانین میں سیاسی بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ اطلاع ملی ہے کہ سیاسی بحثیں ہوئیں، اس لیے اب عظمیٰ خان کے لیے ملاقاتوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ ایسا نہیں ہوگا۔‘

اسی دن وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کو 9ویں بار عمران خان سے ملاقات کی اجازت دینے سے انکار کیا گیا تھا۔ انہوں نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے خطاب میں کہا تھا کہ وہ میڈیا کو مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں اپ ڈیٹ کریں گے کہ وہ دھرنا دیں گے یا نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست