’پیارے مولوی او پیارے مولوی‘
ہسپتال کی بھاگا دوڑی میں ایک دروازے کی طرف جا رہا تھا کہ ۔۔۔
نہیں رکیں، سنیں پہلے۔
رات آیا تھا ایک مریض، کھانس کھانس کے بے حال، کھڑکھڑاہٹ چلتی رہی، مشینیں لگی ہوئی تھیں ۔۔۔ ایک مرتبہ گزرا تو دیکھا تل چاولے بال ہیں، کھچڑی داڑھی ویسی ہی، گہرا سانولا رنگ، ہو گا پانچ فٹ دس انچ، اچھا صحت مند، پچاس پچپن میں تھا۔ آڑھا ٹیڑھا لیٹا ہوا تھا، بہت بے آرام قسم کے پوز میں، شلوار قمیض کسی بے نام سے رنگ کی تھی۔
سوچا اس شکل کا آدمی کون تھا، بچپن میں گلی کے آخر میں جو وہ دکان تھی درزی کی، وہ اس نما تھا یا وہ پنواڑی قسم لڑکا جو چلتی کلاس سے مجھے دیکھ کے ہاتھ ہلا دیتا تھا، اس کے جیسا۔۔۔
ہماری گلی میں سرکاری سکول کی ایک کھڑکی کھلتی تھی، لال اینٹوں کی دیوار، جالی کے پیچھے جیل جیسی سلاخیں، ان کے پیچھے لکڑی والے پٹ، اندر کی طرف کھلے ہوئے ۔۔۔ تو وہ لڑکا، جو عمر میں زیادہ ہو گا مجھ سے، ایسے ہی مجھے جاتے دیکھ کے تفریحا ہاتھ ہلا دیتا تھا۔ میں اسے پہچان لیتا لیکن اجنبیوں سے جھجھکنا عادت تھی، تو جوابی ہاتھ کبھی نہیں ہل سکا۔
کھانسنے والا بے حال مریض شاید وہ لڑکا ہو، یا درزی ہو ہمارے والا، ایسے ہی، خواہ مخواہ آتے جاتے رہے خیال۔
ایک مرتبہ اس کے پاس سے گزرا تو دوسرے بستر سے کوئی ملاقاتی خاتون اپنے مریض کو بتا رہی تھیں، ’شودا کلہا اے، جڈن دا آیا ہے کوئی بندہ نمی ڈٹھا اینہدے کول‘ (اکیلا ہے بے چارہ، کوئی دوسرا دیکھا نہیں اس کے آس پاس جب سے آیا ہے۔)
پھر کھانستے کھانستے کبھی تکلیف ہوتی تو وہ اونچی آواز میں شاید سٹاف کو بلاتا، یا کچھ کہتا، جو کانوں تک پہنچتے پہنچتے نامانوس ہو جاتا، کبھی کوئی آ کے دیکھ لیتا، ورنہ لوٹ پوٹ کے بہتر ہو جاتا ہو گا۔
رات جتنی بار بھی اس کے پاس سے گزرا وہ اکیلا ہی تھا، سوتا ہوا، مشینوں کے بیچ۔
سورج نکلا تو پہلی بار جنرل وارڈ کی کھڑکی کا پردہ ہٹا ہوا تھا، سنیما کے جیسی دھوپ آ رہی تھی لیکن اندر وہی سرد ماحول تھا اور صبح چھ بجے والی شفٹ کی اٹھا پٹخ۔
وہ دروازے سے ایک بستر پہلے لیٹا ہوا تھا۔ تب اپنے مریض کی جلدی میں تیز قدموں نکلنے لگا تو آواز آئی، ’پیارے مولوی‘، ان سنی کر دی، مولوی میں کہاں ہوں، اور پیارے تو بچے ہوتے ہیں؟ بڑھا تو پھر کانوں سے دور جاتی ہوئی او پیارے مولوی کی آواز آئی۔
کام نمٹایا، سردی، دھند اور دھوپ باہر کی کھڑکی سے دیکھتے ہوئے اندر آیا تو اس مریض کی طرف دھیان گیا، وہ سرمئی مگر چمکتی آنکھوں سے نسبتاً کم کھڑکھڑاتی آواز میں کہنے لگا، ’پیارے مولوی۔۔۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں اسی بچے جیسا محسوس کر رہا تھا جس نے سکول کی کھڑکی سے ہاتھ ہلاتے ہوئے کو اجنبیت کے چکر میں جواب نہیں دیا تھا، سنی ان سنی کر کے اپنے مریض کی جلدی میں آگے نکل گیا۔
اس کے چہرے پہ شرارت تھی، آنکھوں میں چمک تھی، صبح بہتر تھی اس کی۔
مجھے تسلی ہوئی کہ ہسپتال اکیلے مریضوں کو بھی ٹھیک کر سکتا ہو گا، لیکن سوچتا ہوں کیا خبر اس نے کیوں آواز دی ہو گی مجھے؟
اگر نکڑ والا درزی تھا وہ، یا بالفرض چلتی کلاس سے ہاتھ اسی کا ہلتا تھا تب بھی، میری اب کی شکل اور پینتیس برس ادھر کے چہرے میں آسمان زمین کا فرق ہے ۔۔۔ تو وہ پہچان تو نہیں سکا ہو گا مجھے ۔۔۔ کیا تھا یہ؟
اور میری توجہ اس کے حلیے نے جس طرح کھینچی، پھر جیسے اسے میرے دماغ نے درزی یا طالب علم سے ملایا، اسے بھی میں جانا پہچانا لگا ہوں گا؟
وہ ٹھیک ہو گیا ہو گا؟ صبح تو اس کا چہرہ بہتر تھا ۔۔۔ میں بات کر لیتا، یا صرف مسکرا کے دیکھ لیتا، ان سنی کیوں کی؟ اپنے گھر کی پڑی تھی، شاید اس لیے۔۔۔
پیارے مولوی ۔۔۔ یہ آج تک مجھے نہیں کہا کسی نے ۔۔۔ خیر ہے، لمحہ تھا، گزر گیا۔
ہسپتال میں اکیلے بے وارث مریض کی رات بھی گزر ہی گئی۔