بڑا سا گھر، اونچی گاڑی، کپل گولز، ڈیسٹینیشن ویڈنگ، سانس لیں بھائی تھم جائیں، ایک منٹ، یہ سب کہاں سے آ رہا ہے؟
کپل گولز کیا چیز ہیں؟ یہ لفظ کب آیا دنیا میں؟ اس سے پہلے ایک انسانی جوڑے کی خواہشات کیا ہوتی تھیں؟ یہ سب کچھ اتنے زور سے ایسے ہی بیٹھے بٹھائے آ رہا ہے ہم لوگوں کو یا اس کے پیچھے کوئی وجہ ہے؟
سن 2000 سے پہلے اس لفظ کا وجود کوئی نہیں تھا اور یہ صرف ایک مثال ہے اس جہنم کی جس میں اس وقت ہم لوگ اپنی مرضی سے سلگ رہے ہیں اور ہمیں ککھ نئیں پتا کہ سنبھلنا کیسے ہے۔
آپ کی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی خواہش کا معیار کیا رہ گیا ہے؟ آپ نے سوشل میڈیا پہ دیکھا کہ ایک آدمی گاڑی میں سفر کر رہا ہے، اب آپ نے ویسے ہی گاڑی لینی ہے، آپ نے دیکھا کسی لڑکی نے کوئی کتا پالا ہوا ہے آپ نے ویسا کتا لینا ہے، آپ نے دیکھی کہیں کیوٹ سی بلی، اب آپ کا دل کرے گا کہ آپ ایک بلی خرید لیں، آپ نے دیکھا کوئی دوست کسی ریسٹورنٹ میں گیا وہاں سے اس نے کھانے کی تصویریں اپلوڈ کیں، اور وہ کھانا جس کا ذائقہ آپ چکھ نہیں سکتے، سونگھ نہیں سکتے، آپ کہتے ہیں یہاں جانا ہے، یہی کھانا ہے!
کوئی آدمی کسی ملک کا سفر کر رہا ہے اور وہ آپ کو بتا رہا ہے کہ اس ملک میں یہ یہ چیزیں ہیں، ایسی پیاری جگہیں ہیں، لوگ اس طرح کے کپڑے پہنتے ہیں اور آپ بس وہ تصویریں دیکھ کے دو منٹ کی ویڈیو میں پاگل ہو جاتے ہیں کہ وہیں جانا ہے اور وہی کرنا ہے ۔۔۔ تصویریں بھی اسی اینگل سے لینی ہیں!
آپ نے کسی کے کپڑے دیکھے، کسی کے جوتے دیکھے، کسی کی بیلٹ دیکھی، جو کچھ بھی دیکھا اب وہ سب حاصل کرنا چاہتے ہیں آپ، اور اب، آپ کی ساری زندگی بس یہی ہے کہ کسی بھی طرح، کوئی بھی کام کریں اور اس کام سے جو پیسہ آئے اسے آپ فوراً ایک عدد سوشل میڈیائی خوشی میں بدل لیں؟ زندگی بیچ کے، خود کو لاکھ جتن میں ڈال کے بس وہ سب خریدیں جو کسی کو دیکھ دیکھ کے آپ خریدنا چاہتے ہیں؟
اس کے علاوہ آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ آپ کس وقت سوشل میڈیا پر نہیں ہوتے؟ آپ کس وقت اپنے دماغ سے سوچتے ہیں؟
اُس وقت، جن دنوں، جس زمانے میں سوشل میڈیا نہیں تھا، ٹی وی نہیں تھا، ان دنوں آپ یاد کریں لوگوں کی خواہشیں کیا ہوتی تھیں؟ سوچیں کہ زندگی کتنی آسان ہوتی تھی ۔۔۔ خواہشوں کی ایک لمٹ تھی، خریداری کی لسٹ سکون سے رک جاتی تھی ایک جگہ جا کر، حسرتیں محدود تر تھیں، کام کرنے کے بعد جو پیسے ملتے تھے اس کو خرچ کرنے کی صلاحیت کتنی لمٹڈ تھی اور کیا وہ اچھا دور نہیں تھا؟
مطلب اس وقت آپ جس منحوس چکر میں پھنسے ہوئے ہیں، آپ کے اوپر ایک مستقل بوجھ ہے 24 گھنٹے کا، کہ آپ نے یہ بھی کرنا ہے، وہ بھی کرنا ہے، کیوں کرنا ہے؟ کیونکہ آپ کے آس پاس موجود وہ سب ’فرینڈز‘ کر رہے ہیں جو آپ کا انسٹاگرام، فیس بک یا ٹک ٹاک کا سرکل ہے ۔۔۔ ایک آدمی موٹرسائیکل کھڑے ہو کے چلا رہا ہے تو آپ نے موٹرسائیکل کھڑے ہو کے چلانی ہے، ایک آدمی جو ہے وہ چھلانگیں مار رہا ہے تو آپ نے بھی چھلانگیں مارنی ہیں، ایک آدمی ڈانس کر رہا ہے تو آپ نے بھی ڈانس کرتے ہوئے ویڈیو ڈالنی ہے؟
کیا یار؟ ہماری پوری زندگی اب وہ ہو گی جو دوسرے دکھائیں گے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اور ہم اپنی زندگی کا قیمتی ترین وقت، اپنی جوانی، اسے ہم نوکری یا کاروبار کے عوض بیچیں گے؟ ان سب خواہشات کو پوری کرنے کے لیے جو جینونلی ہماری ہیں ہی نہیں؟ جو دوسروں کو دیکھ دیکھ کے ہمارے اندر جاگ رہی ہیں؟
پہلے ڈی ٹاکس کی بات ہوتی تھی، ڈیجیٹل کلینزنگ کا سوچتے تھے لوگ، اب تو کوئی اس بھیڑ چال سے نکلنا بھی نہیں چاہتا، پہلے جو منع کرتے تھے وہ بزرگ ٹائپ نسل بھی اسی سب میں کھپ گئی ہے۔
زمانے کے ساتھ چلنے سے آپ کو نہیں روکتا میں، لیکن کوئی حد ہو گی؟ کوئی تو آواز ہو جو ہمیں بتائے کہ زندگی صرف جلنے کھپنے، دوسروں کے دکھائے خواب پورے کرنے اور ہلکان ہونے میں نہیں لگائی جا سکتی اور سوشل میڈیا برائے تفریح ہوتا ہے، سوشل میڈیا برائے زندگی نہیں ہوتا بابا!
اور یہ سب کچھ جو میں کہہ رہا ہوں یہ بھی ان کو سمجھ آ سکتا ہے جو 25 سے 45 کے درمیان والے ہیں، باقی لوگ ۔۔۔ یعنی 25 سال سے کم عمر والے بچے یہ سمجھ بھی کیسے سکتے ہیں کہ سکرینوں سے ہٹ کے ایک نارمل زندگی واقعی کبھی ہوا کرتی تھی، جب ضرورت اور خواہش میں باقاعدہ فرق ہوا کرتا تھا۔
ضرورت وہ ہے جس کے بغیر زندگی نہیں گزر سکتی جیسے کھانا، پانی، سونے کی جگہ، کپڑے، صحت، تعلیم، اور خواہش کیا ہے؟ وہی بڑا سا گھر، اونچی گاڑی، کپل گولز، ڈیسٹینیشن ویڈنگ، فینسی جانور، مہنگے ترین کپڑے، باہر ملک کی یونیورسٹی ۔۔۔ تو بس یہ فرق ہے اور ابھی وہ میٹا والے کہتے ہیں کہ یہ عینک بھی ہم سے خرید لو اس میں کیمرہ لگا ہوا ہے اور گانے بھی سن سکتے ہو اور یہ صرف پانچ سو ڈالر کی ہے، آئی فون والے بولتے ہیں کھٹے رنگ کا یہ فون خریدو بس چھ لاکھ میں ۔۔ کوئی حد ہے؟ اور یہ سب خواہش سے زیادہ ہمیں ضرورت لگتا ہے؟ ہماری بھی کوئی زندگی ہے اپنی؟
یہ ٹیکنالوجی نہیں ہے، یہ وحشتوں کا بازار ہے، اندھی نقالی کا جنگل ہے اور قاتلانہ کنزیومرزم کی سمجھیے کہ بس شروعات ہے۔ ساری زندگی اتنا سرپٹ کیوں بھاگنا ہے یار؟
ضرورت اور خواہش میں فرق کریں، اسے سمجھیں، سکون کا وقت گزاریں!
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈںٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔