آپ ایک بادبانی کشتی پہ سوار ہیں، سمندر کے عین بیچ میں، رات کا وقت ہے، اور ہوا رک جاتی ہے۔ کیا کریں گے؟
ہوا نہیں ہے تو کشتی نہیں چلے گی، ٹھیک ہے، لیکن کتنے دن نہیں چلے گی؟ اگر آپ سانس لے رہے ہیں اور دو تین دن کھانے کا سامان ساتھ ہے، اور آپ اطمینان سے منتظر بیٹھے ہیں تو ہوا نے چلنا ہے ۔۔۔ اور کشتی نے بھی آگے بڑھ ہی جانا ہے، یہ سکون آپ کا نارمل ری ایکشن ہو گا۔
لیکن اگر آپ مایوس ہو گئے اور ہاتھ پیر چھوڑ دیے تو کوئی پتہ نہیں کہ جب تک ہوا چلے آپ ہولتے ہولتے فوت ہی ہو گئے ہوں اور کشتی بے چاری میت اٹھائے ادھر ادھر ڈولتی پھرے۔
یہی معاملہ زندگی کا ہے۔ جس وقت ہم سمجھتے ہیں کہ سارے راستے بند ہو گئے، ہوا تک نہیں ہے زندگی کا بیڑا بیچ سمندر میں آگے بڑھانے کے لیے، اس وقت تھوڑے صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہوا نے ہمیشہ رکے نہیں رہنا، چلنا ہے، وقت ایک جگہ تھما ہوا ضرور لگتا ہے لیکن ۔۔۔ اس نے بھی آگے بڑھنا ہے۔ سب کچھ آگے چلنا ہے لیکن شرط کیا ہے؟
صبر
ہوا کی امید
دو تین دن کا آسرا
کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ ہوا نہ چلے، جس طرح وقت گزرتا ہے سمندر میں اسی طرح ہوا چلتی ہے، اسے چلنا ہی چلنا ہے۔ بادبان والی کشتی اسی اصول کو دیکھ کر بنائی گئی تھی کہ کھلے سمندر میں ہوا نے چلنا ہے اور چلتے رہنا ہے۔
سمندری علم کہتا ہے کہ بُرے سے بُرے پریشر زون میں بھی اگر ہوا سے چلنے والی کشتی پھنس جائے تو دو تین سے زیادہ اسے رکنا نہیں پڑے گا، بس یہی کچھ زندگی گزارنے والوں کا علم بھی کہتا ہے۔
اس علم کا نام امید یا آسرا سمجھ لیں۔
امید اصل میں ڈوپامین ہے، یعنی دماغ کا پیٹرول، وہ ہو گا تو ہم آگے بڑھیں گے ۔۔۔ کیسے؟
امید ہمیں حاصل کرنے کی طلب میں لگائے گی، ہم کچھ ہلیں جلیں گے، دائیں بائیں ہوں گے، دیکھیں گے، سوچیں گے کہ یار چلو اب تک جو ہو گیا سو ہوا، اب کیا کرنا ہے، کوئی تو حل ہو گا، کسی طرح تو حالات بہتر ہوں گے، تو یہ سب کرتے کرتے ہم دوبارہ سے اس ٹریک پہ چڑھ جائیں گے جس کا نام زندگی ہے۔
امید صرف اتنی سی چیز نہیں کہ بس آنکھیں بند کر کے سوچیں اور بقول شاہ رخ خان ساری کائنات ہمارے ساتھ جُڑ جائے، نہیں، امید بلکہ، ایک کیفیت ہے جس میں آنے کے بعد، بغیر ہوا کے بیچ سمندر میں کشتی پر بیٹھے ہوئے ہمیں دور کہیں ساحل پر کم از کم بتیاں جلتی نظر آئیں گی، لگے گا کہ کچھ اچھا ہو سکتا ہے، اس دوران ہم وہ مسئلے حل کرنے کے بارے میں سوچیں گے جن کی وجہ سے ہمیں لگ رہا تھا کہ کشتی ایک ہی جگہ کھڑی ڈول رہی ہے اور دماغ کا پیٹرول ہو گا تبھی یہ سب کچھ کرنے کی طاقت بھی آئے گی نا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دعا کب کرتا ہے انسان؟ جب صبر کر جائے یا شدید بے تاب ہو ۔۔۔ یہ دونوں چیزیں کیا ہیں؟ امید ہی کا نام ہیں، صبر کا مطلب ہوا کہ مان گئے اور کشتی میں بیٹھے رہے تن بہ تقدیر کہ بس جو ہو سو ہو، بے تابی کیا ہوئی کہ نہیں مانے اور کشتی آگے بڑھانے کو ہاتھ پیر چلاتے رہے، سمت ڈھونڈتے رہے، لیکن رہے تو امید ہی میں نا؟ امید میں رہے تو دعا بھی کرتے رہے، دعا اسی وجہ سے ہر مذہب میں Key Element ہے۔
تو ایک منزل ہے جہاں تک پہنچنا ہے، ایک راستہ ہے جو اس تک لے کے جائے گا، ایک آسرا ہے جو ہوا کا ہے، ایک طاقت ہے جو اس سفر کے لیے چاہیے، یہ تین چیزیں بس پوری ہو گئیں تو امید بندھ گئی، وہ بندھی تو دعا ساتھ میں فری آ گئی اور یہ سب کچھ ہو گیا تو انسان آ گیا زندگی کے راستے پر۔
تو بس یاد رکھیں کہ ہوا نے چلنا ہی چلنا ہے، کشی رکنے کا سوال ہی نہیں ہے، اور زندگی گزارنے والوں کا علم کہتا ہے کہ وقت نے بدلنا ہی بدلنا ہے، اور ’بس یاد رکھیں‘ جو میں نے کہا، یہ ’یاد‘ وہ امید ہے جس کا آپ نے ہاتھ تھامے رکھنا ہے۔
جو جو کھلے سمندر میں ڈول رہا ہے، سب کے بیڑے پار لگائے مولا، امید ہو یا دعا ہو، بس آسرے بنے رہنے چاہئیں۔