ورک لائف بیلنس کون کر سکتا ہے بھائی؟

کامیاب لوگوں کی، کسی بھی بڑے آدمی کی زندگی اٹھا کے دیکھ لیں، کوئی ورک لائف بیلنس نہیں ملے گا آپ کو، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، گھر والے کیا اسے خود اپنے آپ سے شکائتیں ہو گی کہ ہاں میں نے فلاں وقت فلاں کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔

ورک لائف بیلنس ممکن ہی نہیں ہے بھائی، یہ گوروں کی بنائی ہوئی باتیں ہیں، آپ ایک ٹائم پہ ورک کر سکتے ہیں یا پھر لائف۔

کرونا یاد ہے؟ کتنی لائف کی تھی؟ لُڈو کھیل رہے ہیں، گھر میں سو طرح کے عجیب و غریب کھانے بنا رہے ہیں، خوش ہو رہے ہیں کہ اوہو، باہر سے تو یہ دو ہزار میں آتا تھا، حالانکہ ستر ہزار کا وہ راشن جو گھر میں اس خوف سے رکھا تھا کہ دکانیں بند ہو گئیں تو کام آئے گا، وہی سارے کا سارا پیلا جا رہا تھا، دو مہینے کا سودا دو ہفتے میں مکا دیا تھا۔ وہ کیا تھا؟ وہ لائف کا آئیڈیل نمونہ تھا کہ نئیں؟

وہی سب کچھ جو ہم ورک لائف بیلنس پہ سوچتے ہیں، اس وقت ہو رہا تھا۔ چوبیس گھنٹے سارے گھر والے ایک ہی گھر میں ہیں، ہر وقت ملاقات ہو رہی ہے، جب بھی جس کا بھی دل چاہتا ہے آ کے سکون سے کوئی بھی قصہ چھیڑ دیتا ہے، کام جس کا ہے وہ ایک کونے میں کرسی میز لگائے بیٹھا ہے، جس کا نہیں ہے وہ بھی وہیں بیٹھا ہے، دونوں ایک ہی حلیے میں ہیں، دونوں نے چھ مہینے تین پائجامے ایک ریزر کے سہارے نکال دیے ہیں، دونوں ہی کسی بھی وقت کہیں بھی کھجا سکتے ہیں، مطلب سب کچھ آئیڈیل تھا لیکن ہم گھبرا گئے تھے ۔۔۔ کہ نہیں؟

دل مانگتا تھا دفتر، بندہ نکلے گھر سے، باہر جائے، وہی پرانی زندگی مل جائے اللہ میاں، یا کرونا ہی ہو جائے مر مرا جائیں، بچ گئے تو کم از کم بے غم ہو کے نکلیں گے کہ اب نہیں ہو گا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔  مطلب اس سے زیادہ گھر کا پکا ہوا ساری زندگی نہیں کھایا ہو گا، نہ گھر والوں کے ساتھ رہے ہوں گے ۔۔۔ ورک بھی برابر کیا، ورک فرام ہوم، لیکن بیلنس پھر بھی نہیں تھا ۔۔۔ کیوں؟

دیکھیں کام بندہ مانگتا ہے، کام کے منہ سے لگا ہوتا ہے خون، آپ کام والے ہیں تو آپ گھر پہ نہیں رہ سکتے اور گھر والے ہیں تو کام آپ کو زیادہ کچھ پیش نہیں کر سکے گا ۔۔۔ ورک لائف بیلنس کا راگ الاپنے والے ادھر کامیاب رہتے ہیں جہاں فارغ ہونے پہ حکومت الاؤنس دیتی ہو، جدھر اللہ معاف کرے نوکری جانے کے ایک ماہ بعد فیسیں بھرنا عذاب لگ رہا ہو ادھر وہی بیلنس پھر آپ کو باؤلے کتے کی طرح کاٹنے کو دوڑے گا۔ جن کے لیے بیلنس کرنا تھا انہی کو بیلنس کرنا مشکل ہو جائے گا بابا!

کام کی ایک ڈائمنشن نہیں ہوتی، کام سے ہی دوسرے کام نکلتے ہیں، تعلقات بنانے ہوتے ہیں، کل کا کام آج پہ چھوڑ دینا ہوتا ہے، دفتر کے بعد بھی کالیں نمٹانی پڑتی ہیں، ای میلوں کے جواب دینے پڑتے ہیں، سوتے ہوئے بھی گروپ میں جھانکنا پڑتا ہے کہ تازی ہوا کا رخ کدھر ہے اور اگلے دن کا سورج کہاں سے نکلے گا تو ایسے میں لائف کیسے بیلنس ہو سکتی ہے؟

کامیاب لوگوں کی، کسی بھی بڑے آدمی کی زندگی اٹھا کے دیکھ لیں، کوئی ورک لائف بیلنس نہیں ملے گا آپ کو، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، گھر والے کیا اسے خود اپنے آپ سے شکائتیں ہو گی کہ ہاں میں نے فلاں وقت فلاں کے ساتھ اچھا نہیں کیا، لیکن جو اسے آتا تھا، وہ اس نے کیا اور وہ اسی حساب سے کاٹ گیا۔

اگر آپ ایک اچھے ورکر یا کاروباری ہیں تو بس شکر کریں، بیلنس آپ کے لیے نہیں بنا، آپ میں جو پوٹینشل تھا اسے آپ نے پوری طرح استعمال کر لیا، آس پاس والوں کو جگہ دیں، پیسہ دیں، آزادی دیں خودبخود سب کچھ بیلنس ہو جائے گا۔

اصل میں یہ ہمارے ضمیر کی آواز ہوتی ہے جسے انگریزی میں نفیس طریقے سے guilt کہتے ہیں۔ گلٹ کسی بھی انسان کی زندگی کا سب بڑا سیاپا ہوتی ہے، اور یہ گلٹ ہر دو صورتوں میں ہونی ہے، کام والے کو ہو گی کہ یار زندگی کو وقت نہیں دے سکا، نارمل ورکر کو ہو گی کہ استاد کام کو زیادہ وقت دینا چاہیے تھا ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ اگر آپ workohlic ہوتے تو آپ کے اندر وہ جرثومہ پہلے دن سے موجود ہوتا، خود بخود اپنی جگہ بناتا، آپ نہیں تھے، بس زندگی کر لی، اچھے رہ گئے، ٹھیک ہو گیا، سب ایسے ہی رہتے ہیں، مر جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہاں، کام والے ہیں اگر آپ، تب بھی وہی بات، کہ بھئی یہ صلاحیت بائے ڈیفالٹ ہے، بیلنس کریں گے تو ہنس کی چال چلتے چلتے اپنی بھی بھول جائیں گے۔

اصل کھیل گلٹ کا ہے، دماغ کا ہے، اس کا سارا کام ہی یہی ہے، آپ بہت اچھے ہیں تو بھی کوئی برائی نکال لے گا، بہت برے ہیں تو آپ کو پچھتاوا اتنا دے گا کہ آپ کہیں گے چل یار جہاں اتنے چھل کپٹ کیے ہیں ایک اور سہی ۔۔۔ لیکن دماغ ۔۔۔ اس نے گیم چالو رکھنا ہے۔

ورک لائف بیلنس ایک جدید گلٹ ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ چنگیز خان، سکندر اعظم، ظہیر الدین بابر، ابراہم لنکن، قائد اعظم، نیلسن منڈیلا یا اپنے بھٹو صاحب نے کبھی سوچا ہو گا کہ یار ورک لائف بیلنس نہیں ہو رہا، آج جلدی چھٹی کر لیں، پندرہ دن کا آف لے لیں ۔۔۔ نہیں، ان کو علم تھا کہ جو کام ہے ان کا، انہوں نے وہی کرنا ہے۔

باقی پندرہ دن کی چھٹی میں حرام ہے کام کوئی ہو پورا، کام عین اسی دن ہو گا جس دن دفتر میں آپ کو بہت سے کام ہوں گے، یہی زندگی ہے اور یہی ورک لائف بیلنس ہے۔

باقی جب دل بہت ہی اوب جائے، ضمیر آواز کی بجائے ڈنڈے مارنا شروع کر دے، دماغ اکسائے کہ تو زندگی کو وقت نہیں دے رہا تو بس وہی کرونا کے دن یاد کر لیں یا پھر صرف تین دن کی چھٹی لے کے بیٹھ جائیں ۔۔۔

تین دن ایک انسان کو اپنی اوقات جاننے کے لیے بہت کافی ہوتے ہیں، خود پتہ لگ جائے گا کہ اصل کام ورک لائف بیلنس کرنا ہے یا بغیر ورک صرف لائف کو بیلنس کرنا!

یا پھر ورک لائف بیلنس کا سب سے آسان حل یہ ہے کہ دن میں آٹھ گھنٹے کام کریں، باقی آٹھ گھنٹے لائف کو دیں، اور باقی آٹھ گھنٹے نیند پوری کریں۔۔۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ دن چوبیس کے بجائے اٹھائیس گھنٹے کا نہیں ہوتا!

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ