ان دنوں ایک ٹی وی چینل کے مارننگ شو کی میزبان کی گفتگو وائرل ہے جس میں وہ مہمان اداکاروں کے ساتھ بیٹھ کر ڈیلیوری بائیک رائیڈرز کو اضافی پیسے (ٹپ) نہ دینے کے طریقے بتا رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اگر فوڈ رائیڈر کے پاس کھلے پیسے نہ ہوں تو وہ اپنے ڈرائیور کو بھیج کر کھلے پیسے منگواتی ہیں تاکہ جب رائیڈر کو دیر ہو تو اسے سبق ملے کہ وہ آئندہ کھلے پیسے ساتھ لائے۔
اس پر پروگرام میں شریک اداکارائیں بھی تمسخر اڑاتے ہوئے ان کی تائید کرتی رہیں۔
یہ گفتگو کرنے والی میزبان لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ وصول کرتی ہیں، لیکن خود گھر میں 50، 100 روپے کے نوٹ نہیں رکھتیں بلکہ ایک غریب رائیڈر کو سبق دینے کے لیے اپنے ملازم کو ہی کھلے پیسے لانے بھیج دیتی ہیں۔
یہ کلپ دیکھ کر میرے ذہن میں سوال آیا کہ کیا یہ میزبان اور ان کی مہمان اپنے جوان بیٹوں کو ڈیلیوری بوائے بنانا پسند کریں گی؟
کیونکہ بقول ان کے کھلے پیسے نہ رکھنا ڈیلیوری رائیڈرز کی عادت بن چکی ہے۔ یقیناً یہ اتنے زیادہ پیسے ہوں گے کہ یہ لڑکے اب تک موٹر سائیکل کی بجائے لینڈ کروزر، ڈی ایچ اے میں کسی بنگلے یا پھر کسی پراپرٹی کے مالک تو بن ہی چکے ہوں گے۔
پھر تو اس پیشے کا بڑا سکوپ ہے کیونکہ اس سے آپ ہر ڈیلیوری پر لاکھوں روپے (ٹپ) کما سکتے ہیں۔
لیکن شاید یہ خواتین اپنے بچوں کو اس کام میں نہ ڈالیں کیونکہ حقیقت یہ بھی جانتی ہیں کہ ان رائیڈرز، سیلز گرلز اور بوائز کا سامنا اکثریت ان ہی جیسی پست ذہنیت والوں سے پڑتا ہے، جنہیں اگر اوپر سے پچاس، سو روپے دینے پڑ جائیں تو انہیں لگتا ہے کہ اگلا ان کا حق کھا گیا۔
ان رائیڈرز کی بڑی تعداد ان افراد پر مشتمل ہے جو بیروزگاری، تعلیم کی کمی، غربت، مالی ضرورت کی وجہ سے اس شعبے میں آئے۔
جب شہر میں بارش سے سڑکیں زیر آب آئیں اور بجلی کی تاریں گرنے سے موت کے خدشات بڑھ جائیں، تب موسم کا لطف لینے اور سوشل میڈیا پر لیٹ نائٹ کریونگ کی پوسٹ ڈالنے کے شوقین افراد آن لائن فوڈ آرڈر کرتے وقت یہی ذہن میں رکھتے ہیں کہ رائیڈر کہیں نہ کہیں سے آ ہی جائے گا۔
تب بھی لوگوں میں یہ حوصلہ نہیں ہوتا کہ وہ اس بارش میں آنے والے کو ٹپ دے دیں۔ کرونا وبا کے دنوں میں یہی رائیڈر تھے جو جان جوکھم میں ڈال کر راشن، دوائیاں اور کھانا گھروں تک پہنچاتے تھے۔
جب آپ کسی ڈیلیوری رائیڈر سے کھانا یا کوئی پارسل وصول کریں تو اس کی بائیک، جوتے، کپڑے اور ہیلمٹ پر غور کریں، آپ کو کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ہم سگنل پر کھڑے ہٹے کٹے بھکاریوں کو صدقہ خیرات اس ڈر سے دیتے ہیں کہ ہمارا دن مشکل نہ گزرے لیکن جو سفید پوش لوگ ہیں اور محنت کر رہے ہیں اور جن کی تنخواہیں حکومت کے مقرر کردہ آٹھ گھنٹے کے حساب سے 40 ہزار روپے سے بھی کم ہے انہیں سو، پچاس اضافی دیتے وقت زندگی کے اصول اور فلسفے سب سامنے لے آتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مجھے آج بھی اس بچی کا چہرہ نہیں بھولتا جو ایک کپڑے کے بڑے برانڈ کے چینجنگ روم کے باہر ٹرائی کیے ہوئے کپڑوں کو سیدھا کرتے ہوئے بہت آہستگی سے اپنی ساتھی کو بتا رہی تھی کہ تم یقین کرو میں نے فلور مینیجر کو اتنی دعائیں دیں کہ اس نے میری شفٹ شام کی کر دی ورنہ مجھے یونیورسٹی کی کلاسز لینے میں بہت مشکل ہو جاتی۔
مجھے وہ 15 سال کا لڑکا بھی نہیں بھولتا جو ایک پیٹرول پمپ کی پنکچر شاپ پر بیٹھتا تھا۔ کچھ عرصہ نظر نہ آنے پر وجہ جانی تو اس کے استاد نے بتایا کہ آج کل چھٹی پر ہے اور نویں جماعت کے امتحان کی تیاری کر رہا ہے۔
نہاری گھر تک لانے والے بزرگ رائیڈر ہوں یا پھر ہیٹ ویو میں پارسل پہنچانے والا پسینے میں شرابور نوجوان، یہ سب محنت کر رہے ہیں، ان کے بھی گھر بار ہیں، ضرورتیں ہیں، خاندان ہیں اور بے شمار مجبوریاں۔
لیکن وہ کیا ہے کہ اس محنت کش طبقے کی تضحیک کرنے والی ٹی وی میزبان کو یہ یقین ضرور ہے کہ غریب کی توہین کرنے پر نہ تو کوئی ہتک عزت کا کیس ہوتا ہے نہ ہی آن ایئر آکر معافی مانگنا پڑتی ہے۔
ہاں ایک شو ضرور ہو جاتا ہے اور وہ آپ کی کلاس، سوچ اور کردار کو ضرور عیاں کردیتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔