’احرام جنون:‘ پیزا ڈیلیوری والے لڑکے کی کہانی

ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ سماج کو بدلنے کے لیے لڑکیوں کے ہی نہیں، لڑکوں کے مسائل کو بھی حل کرنا اور ان کو دکھانے کی اشد حد ضرورت ہے۔

اس ڈرامے میں شاید پہلی بار ایک پیزا ڈیلوری بوائے ہیرو کے کردار میں آیا ہے (ہر پل جیو)

ہمارے ڈراموں کی اکثر کہانیوں میں لڑکیوں کی مجبوریاں دکھائی دیتی ہیں، ایسے میں جب کسی لڑکے کی کہانی اور خصوصاً مڈل کلاس لڑکے کی کہانی آتی ہے تو چھا جاتی ہے۔

’احرام جنون‘ بھی ایسے ہی مڈل کلاس لڑکے شانی کی کہانی ہے، جس کو نوکری نہیں مل رہی۔ اس لیے وہ کسی پیزا کمپنی میں ڈیلوری بوائے کی جاب کر کے گھر چلا رہا ہے۔ اس کی بہن ٹیوشن پڑھاتی ہے اور ایک بھائی ابھی کالج میں پڑھ رہا ہے۔

یوں گزر بسر ہو رہی تھی کہ چلتے چلتے شانی کو اپنی ماموں زاد سجیلا سے محبت ہو جاتی ہے، لیکن سجیلا کے دل میں کزن کے لیے کسی قسم کے رومانوی جذبات نہیں ہیں اس لیے اظہار محبت پر اس کا رویہ کزن شانی کے ساتھ سرد ہو گیا ہے، ورنہ وہ دونوں بہت اچھے دوست تھے۔

یہاں تک تو ایک المیہ بن جاتا ہے مگر نکتہ ہے کہ یہ مڈل کلاس مائیں ہمیشہ بیٹی کے دکھ کو المیہ سمجھتی ہیں، بیٹے ان کے لیے جذبات سے الگ کوئی مشین ہوتے ہیں۔

یہ وہ نازک موڑ ہے جس کی وجہ سے ہماری مڈل کلاس میں مرد آخر کار ایک ظالم، بےحس، الجھے ہوئے کردار کے طور پہ سامنے آتا ہے۔ وہ اپنی ذمہ داریاں جو اس پہ لاد دی جاتی ہیں نبھا رہا ہوتا ہے مگر اس کی اپنی زندگی کا حسن ختم ہو جاتا ہے۔

شانی کی ماں اپنی بیٹی سے کہتی ہے، ’جس کی جوان بہن گھر میں ہو وہ لڑکا محبت نہیں کر سکتا۔‘ شانی یہ بات سن لیتا ہے، یہاں سے عورت نفرت یا بہن نفرت کا رویہ شروع ہوتا ہوا غیرت کے نام پہ قتل تک جاتا ہے۔

اگر لڑکا اور لڑکی کی پیدائش والدین کے اختیار میں نہیں ہے تو مڈل کلاس والدین ان کے جذبات اور زندگی پہ اتنا کنٹرول کر کے ان کو ذہنی مریض کیوں اورکیسے بنا دیتے ہیں۔ اس ڈرامے میں دیکھا جا سکتا ہے۔

گرچہ یہ ڈراما ہے، فلسفہ بیان نہیں کر سکتا پھر بھی سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں۔

شانی کے والد نہیں ہیں، وہ امیر نہیں ہے، اس کی بہن کی شادی نہیں ہو رہی تو ماں نے اس کے دل کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش جاری رکھی ہے۔

ایسی مائیں اس سماج میں کثرت سے موجود ہیں جن کا خیال ہے جب تک بہن نہیں بیاہی جاتی، بھائی جی بھی نہیں سکتے۔

اگر آپ اپنے بیٹے کے لیے اچھا نہیں سوچ سکتے تو اس کی سوچ پہ پہرے مت بٹھائیں، اگر آپ کسی کی بیٹی کے لیے اپنے گھر کا در نہیں کھولیں گے، کوئی کیوں آپ کی بیٹی کے لیے در کھولے گا؟

اپنے بیٹوں کو بھی مکمل انسان سمجھیں، اس کے جذبات کا بھی احترام کریں، بہن بھائیوں کو اپنی سوچ کی روایتی چوٹ سے الگ الگ مت کریں تفرقہ کرنے سے رحمت بوجھ بن جاتی ہے۔

ڈراما پہلی ہی دو اقساط میں چھا گیا ہے اور اگر یہ رومانوی کہانی یونہی شانی کے مڈل کلاس کردار پہ فوکس رہی تو اس کی شہرت و پسندیدگی میں مزید اضافہ ہو گا کیونکہ یہ ہمارےملک کی بہت بڑی آبادی کا مسئلہ ہے۔

دوسری کہانی شانزے کی ہے۔ ایک امیر باپ کی خوبصورت اکلوتی چڑیا کی کہانی، جس نے اپنے والدین کو ایک غیرصحت مندانہ روایتی ازدواجی زندگی گزارتے دیکھا ہے جس کی وجہ سے اس کے اندر تلخی آگئی ہے۔

اب وہ اپنی زندگی روایات سے ہٹ کر صحت مند گزارنا چاہتی ہے اور اسے یقین ہے جو لڑکا اسے اچھا لگے گا وہ اپنی مثالی زندگی اسی کے ساتھ گزار سکے گی۔

شانزے کی ایک ہی سہیلی ہے، وہ بھی اپنی منگنی کے بعد اسے غیر صحت مند دماغ کی مالک سمجھنے لگی ہے۔ لیکن حسن کی اپنی بھی ایک کہانی ہوتی ہے۔ لوگ اس پہ اتنا مرتے ہیں کہ اسے کسی حسن و دولت پہ نہ مرنے والے کی تلاش ہو جاتی ہے۔

وہ نارمل زندگی کے نارمل رویے کو انجوائے کرنا چاہتی ہے۔ یہ وی آئی پی جھوٹی تعریفوں فلرٹ نما محبت سے اسے نہ صرف چڑ ہے بلکہ وہ ایسے لمحے تلخ بھی ہو جاتی ہے۔ وہ کسی ایسے لڑکے سے شادی کر نا چاہتی ہے جس سے اس کو پیار ہو جائے، اور حسن اتفاق پہلی ہی نظر میں شانی سے اسے پیار ہو جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شانزے کا تجربہ و مشاہدہ اس کی تنہائی نے اتنا گہرا کر دیا ہوا ہے کہ وہ انسان کو پہچان لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے بہت سے لڑکوں کو شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان میں سے کوئی اس سے فلرٹ کرنا چاہ رہا تھا، کوئی حسن و دولت سے متاثر تھا۔ بظاہر وہ ایک مشکل لڑکی لگ رہی ہے لیکن وہ اصل میں ایک آئیڈیلوجی لے کے چل رہی ہے کہ اس لیے منفرد ہے، ورنہ شانی کے غریب ہونے کی وجہ سے اسے شانی سے محبت نہ ہوتی۔

اب چونکہ محبت ہو گئی ہے تو بات عشق تک جائے گی، کیونکہ شانزے عام کردار ہے، نہ شانی عام لڑکا ہے۔

عشق و مشک چھپائے نہیں چھپتے اس کی خوشبو پھیل ہی جاتی ہے۔ اگلی اقساط میں زندگی اور سماج آمنے سامنے آنے والے ہیں۔ ڈرامے نے روایتی سوچ سے جنگ لڑنی ہے۔

یہ خوبصورت کہانی جہانزیب قمر نے لکھی ہے اور ہدایت کار سید رامش رضوی ہیں۔ کاسٹ ساری ہی سینیئر ہے، مرکزی کردار عمران عباس، نیلم منیر اور نمرہ خان ادا کر رہے ہیں۔ تھیم سانگ بہت اچھا ہے۔ ڈراما ’ہر پل جیو‘ سے پیر منگل کو نشر کیا جا رہا ہے۔

روشنیوں کے شہر کا روشن چہرہ دکھایا گیا ہے۔ عکس بندی میں بھی کہانی کی طرح وسعت ہے۔ مکالمہ سادہ ہے اس لیے عام ناظر کے قریب ہے۔ مسائل ملک کی بڑی آبادی کے ہیں اس لیے شدت سے قبول ہو رہے ہیں۔

سماج کو بدلنے کے لیے لڑکیوں کے ہی نہیں، لڑکوں کے مسائل کو بھی حل کرنا اور ان کو دکھانے کی اشد حد ضرورت ہے۔ یہ ڈراما ایک مڈل کلاس، سیلف میڈ مرد کی سما جی مجبوریوں کو اجاگر کر نے جا رہا ہے جو بہت مثبت قدم ہے۔

ایک پیزا ڈیلوری بوائے شاید پہلی بار ہیرو کے کردار میں آیا ہے۔ ان کے مسائل اور مشقت کو پیزا کھاتے ہوئے آپ کو محسوس ہو گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ