’کچھ ان کہی‘: تدبیر سے تقدیر تک زندگی

ناموافق حالات کیسے سازگار ہو جاتے ہیں اور بکھرنے والے کیسے اکٹھے ہو جاتے ہیں؟ محبت میں بدگمانی اور بدگمانی میں محبت کیسے چھپی ہوتی ہے؟ یہ سب جاننے کے لیے ڈراما ’کچھ ان کہی‘ دیکھنا ضروری ہے۔

ڈرامے کی کہانی تدبیر سے تقدیر تک کے سفر کی ایک معصوم اور مثبت داستان ہے (اے آر وائی ڈیجیٹل/یوٹیوب/سکرین گریب)

ٹوٹتا ہوا خاندانی نظام ہمارا اہم سماجی مسئلہ بنتا جا رہا ہے اور ڈراما ’کچھ ان کہی‘ یہی بتا رہا ہے۔

انسان جو کچھ سوچتا ہے اسی کے مطابق عمل کرتا ہے لیکن نتائج کبھی حسب منشا نہیں آتے، یہاں سے تقدیر اور فطرت کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ ڈرامے کی کہانی بھی تدبیر سے تقدیر تک کے سفر کی ایک معصوم اور مثبت داستان ہے۔

آغا صاحب کی خواہش و تدبیر بس اتنی سی تھی کہ ان کے وراثتی گھر کے حصے نہ ہوں، فروخت نہ ہو جس کے لیے وہ بغیر کاغذی و عدالتی کارروائی کے حصے داروں کو حصہ دیتے رہے اور اندھا اعتبار کیا لیکن ان کا اعتبار ٹوٹ گیا۔ کہانی تین بیٹیوں اور ایک بہن صوفیہ کے ارد گرد گھومتی ہے۔

سب لڑکیوں کو لڑکیاں سمجھ کر محبت کے روایتی بندھن سے باندھ کر ان کے پیدائشی ٹیلنٹ کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن عشق و مشق کی طرح قابلیت بھی نہیں چھپتی لہٰذا صوفیہ، سامعہ اور عالیہ کی تعلیم تربیت و قابلیت اپنا رستہ بنا کر آغا صاحب کا فخر بننے چلے ہیں۔

ایک مدمقابل پارٹی اسفر کا خاندان ہے اور اسفر اپنی جائیداد میں اور اپنے رشتوں کے مقابل آن کھڑا ہوا ہے۔ وہ شائستہ کے ساتھ مقابلے پر ہاؤسنگ سوسائٹی بنا کر اسے زیر کرنا چاہتا ہے۔

شائستہ نے سب سے اہم معاون عالیہ کو نوکری سے تو نکال دیا مگر اسفر نے اسے اپنی کمپنی میں نوکری دے دی۔

عالیہ کو نوکری کی ضرورت ہے لہٰذا وہ یہ نوکری کی پیشکش قبول کر لیتی ہے۔ یہاں سے اسفر کے ساتھ رقابت کے بادل بھی امنڈ کر برسنے لگتے ہیں۔

اب محبت و رقابت تو ساتھ ساتھ ہی چلتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ رقیب اور محبوب کون ہے۔ عالیہ پر بھی یہ راز فاش ہو ہی جائےگا۔

آغا صاحب کی تدبیر نے جو گل لالہ کا باغ بنانے کی سوچی تھی وہ گلاب کا باغ اور رات کی رانی کی مہک بنتا جا رہا ہے۔ موتی ایک ایک کرتے مالا بن رہے ہیں۔

ڈراما ’کچھ ان کہی‘ ایسا ہی ایک خوبصورت کولاج و مونتاج ہے جہاں آغا صاحب کا مکان سمٹ کے گھر بنتا جا رہا ہے۔ یہ پرانا بڑا سا مکان آغا صاحب کے لیے طوطے میں جان کے مترادف ہے۔

وہ مکان جس کی وراثت کے بہت سے حصے دار جنم لیتے جا رہے تھے، آغا صاحب جس کو بچانے کے لیے عرصے سے کسی نہ کسی طور بیوی کے زیور فروخت کر کے بھی حصے دے رہے تھے لیکن لینے والوں سے چونکہ انہوں نے عدالتی کارروائی نہیں کی ہوئی تھی لہذا وراثت کا دعویٰ جوں کا توں رہا اور آغا صاحب پر وضع داری میں قرض چڑھتا جا رہا ہے۔

منجھلی بیٹی کی باپ سے محبت یہ تھی کہ وہ وراثتی قرضہ اپنی نوکری سے اتارنا چاہ رہی ہے۔ وہ اس عمر میں یہی سوچ سکتی ہے کہ زندگی کی جنگ لڑ کے باپ کی عزت و خواہش جیت لے۔

آغا صاحب کا خیال ہے کہ ان کے آبائی گھر کے حصے دار اس لیے جنم لیتے جا رہے ہیں کہ ان کے ہاں کوئی وارث یا بیٹا نہیں ہے لیکن ان کے گھر کی لڑکیاں بیٹوں سے زیادہ سمجھ دار اور تحمل والی ہیں۔

 ان کی تو اپنی بہن صوفیہ ایک بہت مضبوط کردار ہے جو ہر انسان کے اندر کا جن بہت نفاست و سلجھے ہوئے پن سے نکالنے کی اہلیت رکھتی ہے۔

صوفیہ کو ڈرامے میں ہر اعتبار سے سب سے منفرد اور مضبوط کردار دکھایا گیا ہے، جس کے اپنے فیصلے، اپنا موڈ اور اپنی سوچ ہے۔ اسی کے باعث وہ سارے گھرانے کے مسائل پر قابو پاتی جا رہی ہے۔

بہت سے موڑ ڈرامے میں ایسے آتے ہیں کہ مصالحہ اور تڑکہ لگایا جا سکتا تھا لیکن شوگر کوٹنگ ماحول پیش کر کے مسائل کو عمدگی و مسکراہٹ  سے حل کرنے کا نسخہ عکس بند کر کے نشر کر دیا گیا، ورنہ کہانی تو جلتی پہ تیل بھی بن سکتی تھی۔

ڈراما ’کچھ ان کہی‘ میں کچھ ٹوٹے پھوٹے رشتے، کچھ ان دیکھے جذبات، کچھ فطری سا رومان، کچھ تھم جانے والے لمحے، کچھ ناپختہ سوچیں، کچھ نا قابل فراموش کردار ملتے ہیں، جو زندگی کی باریک جزیات سے مل کر زیست بنتے جا رہے ہیں۔ ڈرامے کا تجسس رومان میں بدل رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ڈرامے کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

کاسٹ کا انتخاب بہت عمدہ ہے۔ ڈرامے میں کردار ہر نوعیت کا ہے مگر شدت نہیں۔  منفی و مثبت رویے موجود ہیں مگر ان میں کانٹوں، زہر اور شیرینی کی انتہا نہیں۔ توازن کا دامن لکھاری، ہدایت کار اور کرداروں نے بھی نہیں چھوڑا۔

زندگی کہیں بھی، کسی کے لیے بھی ہموار نہیں ہوتی، اسے اپنے اپنے رویوں سے ہی توازن میں لایا جاتا ہے۔ آغا صاحب کے گھرانے میں یہ توازن ذرا تاخیر سے اور الٹے پیر آ رہا ہے، جو آبائی مکان کو گھر میں بدل دے گا۔ رومان کو رشتوں میں جوڑ دے گا۔

جو لالچ کے چکر میں آ رہے ہیں فطرت ان پر خزاں بن جائے گی۔  مثبت و وزنی سا رویہ بہت ہلکے پھلکے انداز میں پیش کیا جا رہا ہے ورنہ زندگی میں بھی ہوتا یوں ہے کہ ہم مشکل لمحوں کے ساتھ بہہ جاتے ہیں اور تکالیف کے ساتھ لڑتے لڑتے بے بس ہو جاتے ہیں۔

خود بھی پریشان ہوتے ہیں دوسروں کی بے سکونی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ کراچی کے ماحول میں سین عکس بند کیے گئے ہیں، جس میں خاندانی پن کی وضع داریاں، روایات، لب و لہجے، کردار، عمل و ردعمل صاف نظر آ رہی ہیں۔

 آج کے افراتفری کے دور میں حالات سے، جذبات پر قابو رکھتے ہوئے لڑنے کا باوقار طریقہ ناظرین کو متاثر کر رہا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان میں خیر کا خمیر اب بھی موجود ہے۔

آغا ہاؤس کی ان کہی کہانی خاندانی پن کی بدولت کہی، سنی اور دیکھی جا رہی ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ شکایت ہو یا محبت اظہار کر دینا چاہیے۔ ان کہی ملال ہے جو گلٹ بھی بن سکتا ہے بدگمانی بھی۔

اب یہ خاندان وراثتی گھر کی جنگ میں بھی اپنی آخری منزل کی طرف جا رہا ہے کہ یہ بڑا سا گھر فروخت ہونے کی کوششیں کرنے والے شر اور اپنے اپنے حصے لے کر ایک طرف ہونے کے منصوبے بنانے والے ایک طرف اور فطرت و تقدیر ایک طرف دکھائی دے رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چھوٹے چھوٹے سماجی و خاندانی مسائل کے ساتھ مسلم ملک میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق پر شائستگی سے بات ہوئی ہے۔

ان کی تعلیم، ان کے بچوں کی تعلیم، ان کی مجبوریوں کو سلیقے سے دکھایا جا رہا ہے بلکہ سماجی نفرت کا حل بھی دلیل سے پیش کیا جا رہا ہے۔

ساتھ ہی ساتھ رئیل سٹیٹ کے کاروبار کے راز فاش ہو رہے ہیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو چلانے کے لیے کی جانے والی منفی، نفرت آمیز اور طاقت کی لڑائی بھی بہت شاہانہ ڈھنگ سے عامیانہ بنتی نظر آ رہی ہے۔

اس کاروبار کے اندر کا راز و عیار پن بھی دکھایا گیا ہے۔

یہ ڈراما اے آر وائے سے نشر ہو رہا ہے اور اپنے کلاسیکی انداز اور سلجھے پن کی وجہ سے بہت پسند کیا جا رہا ہے۔

ڈرامے میں خواتین کے کردار مضبوط دکھائے گئے ہیں جبکہ مردوں کے کردار روایتی مردانہ کرداروں سے مختلف نرم مزاج احساس کرنے والے، سمجھنے والے اور ساتھ دینے والے ہیں۔

خواتین کرداروں کے لباس ان کے کردار کے اعتبار سے اپنی اٹھان بڑھا رہے ہیں۔

اس ڈرامے کا تھیم سونگ بھی بہت زبردست ہے اور خوب پسند کیا جا رہا ہے، جسے اذان سمیع خان نے گایا اور کمپوز کیا ہے۔ ڈرامے اور فلم کے کلاسیک دور کی تاریخ اس ڈرامے میں ہر اعتبار سے رچی بسی ہوئی ملتی ہے۔

محمد احمد نے ڈراما لکھا ہے اور پروڈکیشن ہمایوں سعید کی ہے۔

ناموافق حالات کیسے سازگار ہو جاتے ہیں اور بکھرنے والے کیسے پھر سے اکٹھے ہو جاتے ہیں، خاندانی پن، رکھ رکھاؤ کیا ہوتے ہیں، محبت میں بد گمانی اور بد گمانی میں محبت چھپی ہوتی ہے مگر یہ سب جاننے کے لیے ڈراما ’کچھ ان کہی‘ دیکھا جانا ضروری ہے، جس کا پیغام عزت ومحبت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ