سائنس میں فراڈ ایک بڑھتا ہوا رجحان ہے: تحقیق

ایک نئی تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ منظم خفیہ نیٹ ورک جعلی تحقیق کو فروغ دے کر سائنس کی ساکھ کو مسلسل نقصان پہنچا رہا ہے۔

ریسرچ ایسوسی ایٹ، راگھون چننمبیڈو مروگیسن 17 جون، 2024 کو وسطی انگلینڈ کی برمنگھم میں آسٹن یونیورسٹی میں تجزیہ سے پہلے شہد کے نمونے کو پگھلانے کے لیے ایک گرم پلیٹ کا استعمال کرتے ہیں (اے ایف پی)

ایک تشویش ناک نئی تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ منظم خفیہ نیٹ ورک، جس میں افراد اور گروہ شامل ہیں، جعلی تحقیق کو فروغ دے رہا ہے اور سائنس کی ساکھ کو مسلسل نقصان پہنچا رہا ہے۔

امریکہ کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے محققین نے سائنسی تحریروں کا بڑے پیمانے پر ڈیٹا تجزیہ کیا اور انکشاف کیا کہ جدید عالمی نیٹ ورک منظم انداز میں علمی اشاعت کی ساکھ کو کمزور کر رہے ہیں۔

پی این اے ایس نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں کہا گیا کہ جعلی تحقیق کی اشاعت، مستند سائنسی کاموں کی نسبت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ یہ نتائج سائنسی برادری کے لیے ایک انتباہ ہیں کہ وہ عملی اقدامات کرے، اس سے پہلے کہ عوام سائنسی عمل پر اعتماد کھو دیں۔

پیچیدہ سماجی نظاموں پر تحقیق کرنے والے نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے محقق اور اس تحقیق کے مصنفین میں سے ایک، لوئس اے این امارل کا کہنا ہے کہ ’یہ تحقیق شاید میری پوری زندگی کا سب سے مایوس کن منصوبہ ہے جس میں میں نے حصہ لیا۔

’سائنس کو اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے خود کو بہتر طور پر سنبھالنا ہوگا۔‘

سائنسی فراڈ عموماً جعلی تحقیقی طریقوں پر مشتمل ہوتا ہے، جیسے ڈیٹا میں رد و بدل یا سرقہ، جو کسی تحقیق کو واپس لینے کا باعث بن سکتے ہیں۔

یہ سمجھا جاتا تھا کہ ایسے اقدامات عام طور پر چند افراد کے انفرادی طور پر کیے گئے کام ہیں، جو مقابلے کے اس ماحول میں آگے بڑھنے کے لیے مختصر راستہ اختیار کرتے ہیں۔

لیکن تازہ تحقیق میں ایک خفیہ نیٹ ورک کا انکشاف ہوا جو پس پردہ رہ کر ’سائنسی عمل کو جعلی بنانے‘ میں مصروف ہے۔

ڈاکٹر امارال نے کہا کہ ’ان میں کروڑوں ڈالر شامل ہیں۔‘

تحقیق میں محققین نے واپس لے لی گئی اشاعتوں، ادارتی ریکارڈز اور تصاویر کی نقل کے واقعات کے ڈیٹا سیٹس کا تجزیہ کیا، جو سائنسی لٹریچر کے بڑے ذرائع جیسے کہ ایلسویئر کا سکوپس اور نیشنل لائبریری آف میڈیسن کا پب میڈ فراہم کرتے ہیں۔

انہوں نے ان علمی جرائد کے ڈیٹا کا بھی جائزہ لیا، جنہیں معیار یا اخلاقی اصولوں پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے ڈیٹا بیس سے نکال دیا گیا اور ان مضامین کا بھی جنہیں سائنسی شفافیت کے مقبول بلاگ ریٹریکشن واچ نے نمایاں کیا۔

انہوں نے ’یپر ملز‘ بروکرز اور جرائد کا ایک نیٹ ورک دریافت کیا، جو بڑی تعداد میں مسودات تیار کرتے اور انہیں ان محققین کو فروخت کرتے تھے جو تیزی سے نیا کام شائع کرنا چاہتے ہیں۔

یہ مسودات عموماً ناقص معیار کے ہوتے تھے، جن میں جعلی ڈیٹا، تبدیل یا چوری شدہ تصاویر اور سرقہ شدہ مواد شامل ہوتا تھا۔

ڈاکٹر امارال کے مطابق ’یہ نہ صرف مقالے خرید سکتے ہیں بلکہ حوالہ جات بھی خرید سکتے ہیں۔ یوں وہ خود تحقیق کیے بغیر اچھے سائنس دانوں کے طور پر نظر آ سکتے ہیں۔‘
 
محققین نے کہا کہ وہ ابھی اس نیٹ ورک کی صرف ابتدائی سطح تک ہی پہنچ سکے ہیں۔

اس تحقیق کے ایک اور مصنف ریس رچرڈسن کے بقول ’پیپر ملیں مختلف طریقوں سے کام کرتی ہیں۔ وہ اکثر مصنف بننے کے مواقع سینکڑوں یا حتیٰ کہ ہزاروں ڈالر میں فروخت کرتی ہیں۔

’کوئی شخص پہلے درجے کے مصنف کے لیے زیادہ رقم دیتا ہے اور چوتھے درجے کے مصنف کے لیے کم۔‘

محققین مختلف حکمت عملیوں کے ذریعے جعلی تحقیق شائع کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض صورتوں میں محققین کے گروہ مل کر متعدد جرائد میں مقالے شائع کرتے ہیں۔

جب ان کی دھوکہ دہی سامنے آتی ہے تو وہ فوراً اپنے مقالے واپس لے لیتے ہیں۔

کچھ لوگ جرائد میں اپنے مقالے شائع کرانے کی خاطر ’جائزے کے جعلی عمل‘ کے لیے ادائیگی کرتے ہیں۔

تازہ تحقیق میں بروکرز کے کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی جو غیرمعروف جرائد میں جعلی مقالوں کی بڑی تعداد میں اشاعت ممکن بناتے ہیں۔

ڈاکٹر امارال نے وضاحت کی ’بروکرز پردے کے پیچھے رہ کر مختلف تمام لوگوں کو آپس میں ملاتے ہیں۔ آپ کو کسی ایسے شخص کی تلاش ہوتی ہے جو مقالہ لکھے۔‘

’آپ کو ایسے لوگ تلاش کرنے ہوتے ہیں جو مصنف بننے کے لیے رقم دینے کو تیار ہوں۔ پھر آپ کو کوئی ایسا جریدہ چاہیے جہاں سب کچھ شائع ہو سکے۔ اور آپ کو اس جریدے میں ایسے ایڈیٹرز بھی چاہییں جو اس مقالے کو قبول کر لیں۔‘

یہ خفیہ تنظیمیں بعض اوقات معروف جرائد کو چھوڑ کر ایسے جرائد کی تلاش کرتی ہیں جو بند ہو چکے ہوں۔

جب کوئی مستند جریدہ اشاعت بند کر دیتا ہے تو بعض لوگ اس کے نام یا ویب سائٹ پر قبضہ کر لیتے ہیں اور خاموشی سے اس کی شناخت اپنا لیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر رچرڈسن نے کہا ’یہ معاملہ ایچ آئی وی نرسنگ جرنل کے ساتھ پیش آیا۔

’یہ پہلے برطانیہ کی ایک پیشہ ور نرسنگ تنظیم کا جریدہ تھا۔ پھر اس نے اشاعت بند کر دی اور اس کا آن لائن ڈومین ختم ہو گیا۔‘

’ایک تنظیم نے اس ڈومین کا نام خرید لیا اور نرسنگ سے بالکل تعلق نہ رکھنے والے موضوعات پر ہزاروں مقالے شائع کرنا شروع کر دیے۔‘

محققین نے اس نیٹ ورک کے خلاف، جو سائنس کی ساکھ کو کمزور کرتا ہے، کثیر جہتی حکمت عملی اختیار کرنے کی اپیل کی۔

انہوں نے ادارتی عمل کی سخت نگرانی، جعلی تحقیق کی نشاندہی کے بہتر طریقوں اور سائنس میں ترغیبات کے نظام کی مکمل اصلاح پر زور دیا۔

سائنس دانوں نے اس بدعملی کو آسان بنانے والے نیٹ ورکس کو سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

ڈاکٹر رچرڈسن کہتے ہیں کہ ’اگر ہم پہلے سے جاری فراڈ سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں تو ہم یقینی طور پر اس چیز کے لیے بھی تیار نہیں جو تخلیقی مصنوعی ذہانت سائنسی تحریروں کے ساتھ کر سکتی ہے۔‘

’ہمیں بالکل اندازہ نہیں کہ سائنسی تحریروں میں آگے چل کر کیا شامل ہو گا۔ کون سی بات سائنسی حقیقت سمجھی جائے گی اور کن باتوں کو مستقبل کے اے آئی ماڈلز کی تربیت کے لیے استعمال کیا جائے گا، جو بعد میں مزید مقالے لکھنے میں استعمال ہوں گے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق