سائنس دانوں کا نیا رنگ ’اولو‘ دریافت کرنے کا دعویٰ

سائنس دانوں نے کہا ہے کہ انہوں نے نیا رنگ دریافت کر لیا ہے۔ اس رنگ کو ’اولو‘ کا نام دیا گیا ہے اور اسے دنیا بھر میں صرف میں پانچ لوگوں نے دیکھا۔

شرکا کے ریٹنا میں لیزر فائر کر کے، محققین نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے رنگ پیلیٹ کو ایک نئے، غیر دیکھے ہوئے رنگ کی شناخت کرنے کے لیے پھیلایا ہے جسے وہ ’اولو‘ کہتے ہیں (سپلائی شدہ)

سائنس دانوں نے کہا ہے کہ انہوں نے نیا رنگ دریافت کر لیا ہے۔ اس رنگ کو ’اولو‘ کا نام دیا گیا ہے اسے دنیا بھر میں صرف میں پانچ لوگوں نے دیکھا۔

یہ رنگ، جسے گہرے نیلے اور سبز رنگ کے امتزاج کا ایک سیر شدہ رنگت قرار دیا گیا، انسانی آنکھ بغیر کسی مدد کے نہیں دیکھ سکتی۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ رنگ صرف لیزر کی مدد سے تحریکی عمل کے بعد نظر آ سکتا ہے، جو انسانوں کو رنگوں کے عام دائرہ ادراک سے آگے دیکھنے کے قابل بنا سکتا ہے۔

محققین نے اوز وژن سسٹم نامی تکنیک تیار کی، جس کا نام ’وزرڈ آف اوز‘ میں ایمرلڈ سٹی کے لوگوں کے سبز رنگ کی عینکوں سے متاثر ہو کر رکھا گیا۔ اس تکنیک کو نئے رنگ کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ رنگ پر کی گئی تحقیق جریدے سائنس ایڈوانسز میں شائع ہوئی۔

تحقیق میں سامنے آیا کہ جب اوز لیزر سگنلز کو جان بوجھ کر صرف چند مائکرون (یعنی میٹر کا 10 لاکھواں حصے) کے ہلے ’جھٹکوں‘ کے ساتھ حرکت دی جاتی ہے تو شرکا لیزر کی قدرتی رنگت کو محسوس کرنے لگتے ہیں۔

جب یہی اوز مائیکرو ڈوزز درستی کے ساتھ پہنچائی جاتی ہیں، تو شرکا کو قوس و قزح کے مختلف رنگ، ایسے انوکھے رنگ جو انسانی آنکھ کی قدرتی حد سے باہر ہیں، اور ایسے مناظر دکھائی دینے لگتے ہیں جیسے ’چمکتے ہوئی سرخ لکیریں‘ یا اولو پس منظر پر گھومتے ہوئے نقطے۔‘

کیلی فورنیا یونیورسٹی، برکلے کے الیکٹریکل انجینئر رین نگ نے کہا کہ ’ہم نے ابتدا ہی سے پیش گوئی کی کہ یہ ایک بے مثال رنگ کا سگنل ہوگا، لیکن ہمیں معلوم نہیں تھا کہ دماغ اس کے ساتھ کیا کرے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اسے دیکھ کر بہت حیرت ہوئی۔ یہ حیران کن حد تک سیر شدہ ہے۔‘

پروفیسر نگ، جو اس تجربے میں حصہ لینے والے پانچ افراد میں شامل تھے، نے بی بی سی ریڈیو فور کے پروگرام ٹوڈے میں بتایا کہ ’اولو‘ ایسا رنگ تھا ’جو دنیا میں نظر آنے والے کسی بھی رنگ سے کہیں زیادہ سیر شدہ تھا۔‘

انہوں نے کہا: ’فرض کریں کہ آپ ساری زندگی صرف گلابی رنگ دیکھتے ہیں، وہ بھی بے بی گلابی، یا ہلکا گلابی۔

اور پھر ایک دن آپ دفتر جاتے ہیں، اور کوئی شخص ایک ایسا شرٹ پہنے ہوتا ہے جو اب تک دیکھی گئی سب سے تیز اور شوخ گلابی ہو،
اور وہ کہیں کہ یہ ایک نیا رنگ ہے تو ہم اسے سرخ کہتے ہیں۔‘

تحقیق کے دوران اوز لیزر نے صرف ریٹینا میں موجود ایم مخروطی ساختوں کو متحرک کیا ’جو اصولاً دماغ کو رنگ کا ایسا سگنل بھیجتی ہیں جو قدرتی بینائی میں کبھی ظاہر نہیں ہوتا۔‘

تجربے کے دوران مشاہدہ کیے گئے رنگ کی تصدیق کے لیے، ہر شریک فرد نے قابل انتظام رنگ کے ڈائل کو اس وقت تک گھمایا جب تک وہ اولو رنگ سے مماثل نہ ہو گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس رنگ کو 'اولو' کا نام خاص وجہ سے دیا گیا، کیوں کہ یہ بائنری 010 کی نمائندگی کرتا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ ایل، ایم  اور ایس کونز میں سے صرف ایم مخروطی ساختیں فعال ہیں۔

تحقیقی مقالے میں لکھا گیا: ’ہم اس نئے رنگ کو ’اولو‘ کا نام دیتے ہیں۔‘

تحقیق کے شرکا نے بتایا کہ ہمارے ابتدائی نظام میں اولو ایک بے مثال سیر شدہ نیلے سبز رنگ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، خاص طور پر جب اسے ایک معمولی سرمئی پس منظر کے مقابل دیکھا جائے۔

’شرکا نے دیکھا کہ اولو کو اس کے قریب ترین یک رنگی روشنی سے ہم آہنگ کرنے کے لیے، انہیں پہلے اس میں سفید روشنی شامل کر کے اس کی شدت کم کرنی پڑتی ہے۔ یہ روشنی رنگوں کی حدود کے کنارے پر موجود ہوتی ہے، اور یہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ اولو ان حدود سے باہر واقع ہے۔‘

تاہم ان نتائج کو بعض ماہرین نے چیلنج بھی کیا۔

جان باربر، جو لندن کی سٹی سینٹ جارجز یونیورسٹی میں وژن سائنسدان ہیں، نے کہا کہ ’یہ کوئی نیا رنگ نہیں ہے۔‘

انہوں نے اس تحقیق کو ’محدود اہمیت کی حامل‘ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک زیادہ سیر شدہ سبز رنگ ہے، جو صرف اس وقت پیدا ہو سکتا ہے جب کسی فرد کا سرخ، سبز رنگ کو پہچاننے کا نظام معمول کے مطابق ہو اور تمام محرک صرف ایم مخروطی ساختوں سے آئے۔‘

اوز کو نظری طور پر روزمرہ کے رنگ دکھانے والے آلات، جیسے کہ آپ کا ٹی وی یا فون سکرین، میں استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن یہ استعمال بہت ناممکن ممکن لگتا ہے۔ ایسا کہنا ہے ٹیم کے سرکردہ مصنف جیمز فونگ کا، جو کیلی فورنیا یونیورسٹی، برکلے میں کمپیوٹر سائنس میں ڈاکٹریٹ کے طالب علم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری موجودہ تکنیک انتہائی مخصوص لیزرز اور بصری نظام انحصار کرتی ہے، جو فی الحال سمارٹ فونز یا ٹی وی سکرینوں میں آنے والی نہیں۔‘

اس لیے اس وقت تک، صرف چند منتخب افراد ہی اولو کو حقیقت میں دیکھنے کے قابل ہوں گے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس