سائنس دانوں نے بالآخر اس پیچیدہ عمل کا سراغ لگا لیا ہے جس کے تحت تالی بجانے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔
یہ دریافت ظاہر کرتی ہے کہ بظاہر سادہ نظر آنے والے افعال بھی طبیعیات سے بھرپور ہو سکتے ہیں۔
یہ تحقیق جریدے فزیکل ریویو ریسرچ میں شائع ہوئی جس میں بتایا گیا ہے کہ تالی کی خاص ’پاپ‘ جیسی آواز صرف دونوں ہاتھوں کے ایک دوسرے سے ٹکرانے سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک کہیں زیادہ پیچیدہ عمل ہے۔ تالی سے آواز پیدا ہونے کی اصل وجہ ہوا میں وہ خالی جگہ ہوتی ہے جو دب کر ایک تنگ خلا سے باہر نکلتی ہے۔
سائنس دانوں نے تالی کو سمجھنے کے لیے مختلف شعبوں کے ماہرین کے مل کر کام کرنے کا طریقہ اپنایا، جس میں براہ راست تجربات، نظریاتی ماڈلنگ اور انسانی ہاتھوں کی سلیکون نقول استعمال کی گئیں۔
انہوں نے تالی کی آواز کی شدت اور دورانیہ ہاتھوں کی رفتار، شکل اور یہاں تک کہ جلد کی نرمی کو تبدیل کیا۔
کورنیل یونیورسٹی سے تحقیق کے شریک مصنف یی کانگ فو نے کہا کہ ’ہم ہر وقت تالی بجاتے ہیں، مگر ہم نے کبھی اس پر گہرائی سے غور نہیں کیا۔ یہی اس مطالعے کا مقصد ہے کہ دنیا کے لیے زیادہ گہرے علم اور سمجھ کے ساتھ بیان کیا جائے۔‘
یونیورسٹی آف میسیسیپی سے تحقیق کے ایک اور مصنف لیکن ژانگ کا کہنا تھا کہ ’مقصد صرف آواز کی لہروں، یا ہوا کے بہاؤ سے پیدا ہونے والی تحریک، یا ٹکرانے کی حرکیات کو الگ الگ دیکھنا نہیں تھا، بلکہ ان سب کو ایک ساتھ دیکھنا تھا۔ یہ مختلف شعبوں کے ماہرین کی مل کر کی جانے والی کوشش ہے جو ہمیں واقعی یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ تالی بجانے سے آواز کیسے پیدا ہوتی ہے۔‘
تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب تالی کے دوران دونوں ہاتھ آپس میں ٹکراتے ہیں تو ہتھیلیوں کے درمیان ہوا میں خالی جگہ پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ کھوکھلی جگہ انگلی اور انگوٹھے کے درمیان موجود تنگ خلا سے تیزی سے باہر نکلتی ہے، جس سے ہوا کے مالیکیولز میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔ سائنس دان اس ارتعاش کو ہیلم ہولٹز گونج کے اصول سے تشبیہ دیتے ہیں، جو وہی اصول ہے جس کے تحت خالی بوتل کے منہ پر پھونک مارنے سے ایک مخصوص آواز پیدا ہوتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر ژانگ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’روایتی ہیلم ہولٹز ریزونیٹرز کی دیواریں سخت ہوتی ہیں، جیسے بوتل کی شیشے کی دیواریں۔ یہ ایک دیرپا آواز پیدا کرتی ہیں جو بہت آہستہ مدھم ہوتی ہے، کیوں کہ زیادہ تر توانائی آواز کے اشارے میں شامل ہو جاتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’لیکن جب دیواریں لچک دار ہوں، مثلاً ہمارے ہاتھ، تو ٹھوس مادہ زیادہ ارتعاش کرے گا، اور یہ ساری حرکت آواز سے توانائی کو جذب کر لے گی۔‘
ماہرین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ تالی سے ایک مختصر ’پاپ‘ جیسی آواز پیدا ہوتی ہے، نہ کہ کوئی طویل شور۔
سائنس دانوں کو امید ہے کہ ان کی یہ تحقیق موسیقی کی تعلیم میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے، جہاں تال کے وقت کے تعین کے لیے اکثر تالیوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔
تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہر شخص کی تالی کی آواز اور فریکوئنسی مختلف ہوتی ہے، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ مستقبل میں تالی کو شناخت کے ایک طریقے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسے ہم فنگر پرنٹس استعمال کرتے ہیں۔
تحقیق کے ایک اور مصنف گوو چِن لیو کے بقول: ’اس تحقیق کا سب سے امید افزا پہلو انسانی شناخت ہے۔ صرف آواز کے ذریعے ہم جان سکتے ہیں کہ تالی کس نے بجائی۔‘
© The Independent