بمبئی کے لبرٹی سینیما میں فلم کا ٹرائل شو جاری تھا۔ اسی دوران امیتابھ بچن غصے میں چلاتے ہوئے ایک مکالمہ ادا کرتے ہیں: ’کس سالے نے سومو پہ ہاتھ اٹھایا ہے؟ بولو! کون ہے وہ مائی کا لعل جو اپنی ماں کا دودھ آزمانا چاہتا ہے، آ جائے سامنے۔‘
حال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے، راجیش کھنہ کی سٹی گم ہو جاتی ہے۔
سومو 1973 میں ریلیز ہونے والی فلم ’نمک حرام‘ کا مرکزی کردار تھا جسے راجیش کھنہ نے سکرین پر نبھایا تھا۔
ٹرائل شو کے دوران اس مکالمے پر وکی کو ملنے والی داد نے انہیں بے طرح پریشان کر دیا۔ امیتابھ بچن کے لیے بجنے والی تالیوں میں انہیں اپنے زوال کی آہٹ سنائی دی۔
یہ راجیش کھنہ اور امیتابھ بچن کی ’آنند‘ کے بعد ایک ساتھ دوسری فلم تھی۔ لبرٹی سینیما میں بیٹھے ہوئے یقیناً راجیش کو دیویانی چوبل کی نصیحت یاد آئی ہو گی، جو انہوں نے دو سال قبل کی تھی۔
1971 میں ریلیز ہونے والی آنند کی کہانی، مکالموں اور اپنی اداکاری کو لے کر راجیش کھنہ بہت پرجوش تھے۔ فلم کی جذباتی کیفیت ان کے دل کے قریب تھی۔ وہ خوش تھے کہ انہوں نے چھوٹے بجٹ کی ایک زبردست فلم کی ہے۔
پریمیئر کے بعد جب راجیش کھنہ باہر نکلے تو صحافی دیویانی سے انہوں نے پوچھا: ’تمہیں فلم کیسی لگی؟‘ انہوں نے لمبی چوڑی بات کرنے کے بجائے مختصر جواب دیا کہ ’آئندہ اس لمبو کے ساتھ کوئی فلم مت کرنا، وہ آپ کی چھٹی کروا دے گا۔‘
راجیش کھنہ ایک بار چونکے اور پھر حیران کن نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا: ’اس لمبو میں ایسا کیا ہے؟‘ دیویانی نے کہا ’آپ نے اس کی آنکھیں دیکھی ہیں؟ میں آپ سے کہہ رہی ہوں کہ اس کے ساتھ کبھی کام نہ کرنا۔‘
راجیش کھنہ نے ہنستے ہوئے بات ٹال دی۔ تین برس بعد دونوں کی ایک ساتھ نئی فلم ریلیز کو تیار تھی اور اب راجیش کو یہ بات سمجھ میں آ رہی تھی۔
اس فلم کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ہری کیش مکھرجی نے راجیش کھنہ اور امیتابھ بچن دونوں سے کلائمکس خفیہ رکھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ فلم کے آخر میں کون مرے گا۔
اگر آپ نے ’آنند‘ دیکھ رکھی ہے تو اس کا آخری سین یاد ہو گا۔ پوری فلم میں راجیش کھنہ چھائے ہوئے تھے۔ آخر میں وہ مر جاتے ہیں اور امیتابھ ان کی لاش کو جھنجھوڑتے ہوئے غصے میں چند سطریں بولتے ہیں۔ پوری فلم میں ’کم کم بولنے والے لمبو‘ کا وہ غصے بھرا انداز بہت گہرا تاثر چھوڑتا ہے۔
آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ اس اداکار میں کچھ ایسا ضرور ہے جو اپنی طرف کھینچتا ہے، کچھ غیر معمولی الگ سی بات۔
یہ غیر معمولی بات 1973 کی دو فلموں سے واضح ہو جاتی ہے۔ پہلی ’زنجیر‘ اور دوسری ’نمک حرام۔‘ یہی دو فلمیں اینگری ینگ مین امیج کا نقطہ آغاز اور راجیش کھنہ کے زوال کی پہلی اینٹیں تھیں۔ اس کے بعد امیتابھ کی ہر فلم سے ان کے پاؤں مضبوط ہوتے اور راجیش کھنہ کا سٹارڈم ڈھلتا چلا گیا۔
ایک بار فلم نقاد دلیپ ٹھاکر نے امیتابھ بچن سے پوچھا کہ ’آپ کا اینگری ینگ مین امیج کس کی دین ہے؟‘ انہوں نے جواب دیا ’زنجیر کے لیے سلیم جاوید اور نمک حرام کے لیے ہری کیش مکھرجی۔‘
’آنند‘ اور ’نمک حرام‘ دونوں کے ہدایت کار ہری کیش مکھرجی تھے۔ ’دو بیگھ زمین‘ اور ’دیوداس‘ جیسی فلموں میں بمل رائے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنے والی ہری کیش انڈیا میں مڈل سینیما کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ مڈل سینیما یعنی کمرشل مین سٹریم اور آرٹ سینما کے درمیان کا راستہ جس کی بہترین نمائندگی ان کی ’آنند‘ اور ’باورچی‘ جیسی فلمیں کرتی ہیں۔
’نمک حرام‘ ان کے خاص رنگ سے ہٹ کر ہے۔ اس کی کہانی ٹریڈ یونین اور اس کی سیاست کے گرد گھومتی ہے۔ سومو (راجیش کھنہ) اور وکی (امیتابھ بچن) گہرے دوست ہیں۔ کارخانے کا مالک وکی کا باپ ایک مزدور لیڈر سے تنگ آ کر یونین میں اپنا بندہ (سومو) شامل کرتا ہے تاکہ مزدوروں کی سیاست ہائی جیک کر لی جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم مزدوروں کے حالات کا قریبی مشاہدہ سومو کا دل نرم کر دیتا ہے۔ اس کے بعد دونوں کی دوستی میں دراڑ آ جاتی ہے۔
اس فلم کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ہری کیش مکھرجی نے راجیش کھنہ اور امیتابھ بچن دونوں سے کلائمکس خفیہ رکھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ فلم کے آخر میں کون مرے گا۔ اسے خفیہ رکھنے کی وجہ دونوں مرکزی کرداروں میں سے کسی کی ناپسندیدگی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بدمزگی سے بچنا تھا۔
’آنند‘ کی طرح ’نمک حرام‘ میں بھی راجیش کھنہ مرتے ہیں۔ ’آنند‘ کی طرح فلم کے تمام گیت ان ہی پر فلمائے جاتے ہیں، لیکن ہونی ہو کر رہتی ہے۔
امیتابھ بچن اور کشور کمار میں ایک مماثلت آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔ ایسے گیت جن میں کشور کے ساتھ دوسرے مرد گلوکار شامل ہوں ان میں کشور کی آواز چھائی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ جیسے انہوں نے ساری فضا اپنے رنگ میں رنگ دی ہو۔
یہی معاملہ امیتابھ بچن کا ہے۔ جب بھی وہ ملٹی سٹار فلم میں آئے دوسرے اداکار پھیکے پڑ گئے۔ اس میں ایک استثنیٰ شکتی فلم میں دلیپ کمار کا لازوال کردار ہے۔
’نمک حرام‘ میں راجیش کھنہ کا کردار ایسا ہے کہ ہمدردی ان سے ہونی چاہیے۔ ایسا ہوتا بھی ہے لیکن ذہن لمبو کے ٹائی کوٹ والے امیج سے بچ نہیں پاتا۔ دوسری طرف ’زنجیر‘ کا کھلے گریبان والا گلی کا غنڈہ ٹائپ نوجوان وجے دیکھ کر آپ تصور میں خود کو ویسا ہی دیکھنے لگتے ہیں۔
’نمک حرام‘ کی شوٹنگ کے دوران اخبارات میں راجیش کھنہ کے تاخیر سے پہنچنے کا چرچا رہا۔ وہ اسے اپنا حق سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ سٹار ہیں اور انہیں یہ رویہ زیب دیتا ہے۔
بالکل ابتدائی برسوں کی فلم ’راز‘ کی شوٹنگ کے پہلے ہی دن وہ تین گھنٹے کی تاخیر سے سیٹ پر پہنچے تھے۔ ایک نئے لڑکے کا ایسا رویہ سب کے لیے حیران کن تھا۔ یہ رویہ آخر تک برقرار رہا۔ انہوں نے ایک بار تفاخر سے کہا تھا کہ ’ایکٹنگ اور کیریئر کی ایسی کی تیسی۔ میں کسی بھی چیز کے لیے اپنا لائف سٹائل نہیں بدلوں گا۔‘
’باورچی،‘ ’نمک حرام،‘ ’بڑھتی کا نام داڑھی،‘ ’آپ کی قسم‘ اور ’اجنبی‘ سمیت متعدد فلموں میں راجیش کھنہ کے ساتھ کام کرنے والے اسرانی نے ایک بار ان کے بارے میں کہا تھا: ’راجیش کھنہ کسی کے بھی زیادہ قریب نہیں تھے اور وہ صرف ان سے بات کرنا پسند کرتے تھے جو ان کی تعریف کرتے ہوں۔
’فلم نمک حرام میں راجیش کے مقابل مستقبل کے سپر سٹار امیتابھ بچن تھے لیکن راجیش اپنے اندر ایک احساس برتری لیے ہوئے تھے اور سمجھتے تھے کہ ان کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔‘