سازِ کشمیر: ایران اور کشمیر کا مشترکہ آلۂ موسیقی

ماہرین کا ماننا ہے کہ اس دور میں ایرانی اور کشمیری سازوں کے امتزاج سے صوفیانہ موسیقی کی کشمیری طرز مرتب ہونے کے ساتھ مخصوص ساز بھی وجود میں آئے، جن میں ’ساز کشمیر‘ ایک منفرد کلیدی ساز ہے۔

ساز کشمیر اگرچہ ایران اور کشمیر کا مشترکہ آلہ موسیقی ہے مگر عصر حاضر میں ’ساز کشمیر‘ اپنی قدیم اور روایتی شکل میں صرف وادی کشمیر میں ہی موجود ہے (انڈپینڈنٹ اردو)

سازِ کشمیر ایک ایسا منفرد ساز ہے جسے ثقافتی میراث میں ایک منفرد مقام حاصل ہے، کیونکہ کشمیر کی موسیقی میں استعمال ہونے والے سازوں میں یہ واحد ساز ہے جو کہیں اور نظر نہیں آتا۔

اگرچہ اس ساز کی ابتدا بھی ایران سے ہوئی ہے لیکن کشمیریوں نے اسے اس طرح حرزِ جان بنایا کہ اس کا نام ہی ’ساز کشمیر‘ قرار پایا۔

مبصرین کہتے ہیں کہ ساز کشمیر اگرچہ ایران اور کشمیر کا مشترکہ آلہ موسیقی ہے مگر عصر حاضر میں ’ساز کشمیر‘ اپنی قدیم اور روایتی شکل میں صرف وادی کشمیر میں ہی موجود ہے اور اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ساز کشمیر کے زوال کا سبب صوفیانہ موسیقی سے عوام اور حکام کی بےرخی ہے کیونکہ اس ساز کا استعمال صوفیانہ موسیقی کے علاوہ موسیقی کی کسی اور صنف میں ممکن ہی نہیں ہے۔

ساز کشمیر ایران سے کشمیر میں جب متعارف ہوا، اس کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے، تاہم عہد سلاطین میں جب کشمیر کی سماجی اور ثقافتی زندگی پر ایران اور ماورائے مہر کے اثرات مرتب ہونے لگے تو موسیقی بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ اس دور میں ایرانی اور کشمیری سازوں کے امتزاج سے صوفیانہ موسیقی کی کشمیری طرز مرتب ہونے کے ساتھ مخصوص ساز بھی وجود میں آئے، جن میں ’ساز کشمیر‘ ایک منفرد کلیدی ساز ہے۔

ساز کشمیر کے ایک ماہر مشتاق احمد ساز نواز اس ساز کی بناوٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ساز کشمیر کے تین کلیدی تار ہوتے ہیں، جن میں ایک تانت اور دور یشم سے تیار کیے جاتے ہیں (معلوم رہے کہ تانت  ایک دھاگہ ہے جو بکرے کی انتڑیوں کو سکھا کر تیار کیا جاتا ہے) جبکہ ساز کشمیر پر بندھنے والے ریشم کے تاروں کو روغن ماہی یعنی مچھلی کی چربی سے چکنا کیا جاتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’ان تین تاروں کے دائیں اور بائیں طرف زیر اور بم کے سات سات تار ہوتے ہیں جو بالترتیب فولاد اور جرمن پیتل کے بنے ہوتے ہیں۔‘

ساز نواز مزید کہتے ہیں کہ ’دائیں طرف کے بجنے والی تاروں پائر سے ٹائر تک عمر دیا جاتا ہے جبکہ بائیں جانب کی تاروں کو سائر دیئے جاتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دراصل ساز کشمیر کی بناوٹ صوفیانہ موسیقی کے 12 مقامات کے دائروں میں کی جاتی ہے اور صوفیانہ موسیقی میں راگ کو مقام کہتے ہیں اور اس ساز میں کل 24 مقام ہوتے ہیں جن میں 12 بنیادی نوعیت کے مقامات ہوتے ہیں اور ہر مقام کے لیے الگ الگ اوقات مقرر ہیں۔ جیسے مقام اساوری کو صرف دو پہر میں بچایا اور سنایا جاتا ہے، اسی طرح چار گاہ شام کے وقت اور نوح رات کے ایام کا مقام ہے۔

ریاست کے معروف گلوکار راشد جہانگیر کہتے ہیں کہ ’صوفیانہ موسیقی میں جو بنیادی اقسام کے مقام ساز کشمیر پر بجائے جاتے ہیں، ان میں کلیان راست، عراق، نوائی، بلول وغیرہ قابل ذکر ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’کشمیر کی نئی نسل ساز کشمیر کو سیکھنے کے لیے تیار ہی نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سرکاری یا غیر سرکاری اداروں میں کہیں بھی اس فن کا مستقبل نظر نہیں آتا۔‘

مشتاق احمد ساز نواز کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے ہی خاندان نے ایران سے یہ ساز کشمیر لایا ہے اور وہ سات پشتوں سے اس کے ساتھ منسلک ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ریاستی کلچرل اکیڈمی اس ساز کو قصہ پارینہ بننے سے روکنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھاتی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’کئی برس قبل ہم نے دہلی میں ہونے والی ایک عالمی موسیقی کانفرنس میں شرکت کی۔ اس کا نفرنس میں ایران کے کئی موسیقار بھی مدعو تھے، لیکن جب ہم نے ایرانی ساخت کا ساز کشمیر دیکھا تو ہم یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ اس کی ہیئت اور استعمال کی کیفیت یہاں کے مقابلے میں بالکل مختلف ہے۔‘

ساز نواز نے کہا کہ ’جب یہ ساز بجانے والے ایرانی موسیقاروں سے اس کی تبدیلی کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ مغربی موسیقی کے اثرات اور زمانے کے مزاج نے ساز کشمیر کو ایران میں بدل دیا ہے اور اب اس ساز کو جدید سازوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا ہے۔‘

کشمیر میں اگر چہ بہت کچھ بدل چکا ہے لیکن انگلیوں پر گئی جانے والی چند ایسی چیزیں جو اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں ان میں ایک ساز کشمیر ہے، تاہم اس امکان سے بھی انکار نہیں کہ اگر ابھی بھی اس منفرد آلہ موسیقی کی باقیات کو سنبھالنے کی کوشش نہ کی گئی تو آنے والے ایام میں اس کا ذکر کرم خوردہ کتابوں میں ملے گا۔

زیادہ پرانی بات نہیں، صرف چند دہائیاں قبل شہر سری نگر میں اس ساز کے ایسے مداح موجود تھے، جو اہتمام کے ساتھ اپنے گھروں میں صوفیانہ موسیقی کی محفلیں سجایا کرتے تھے، مگر وقت کی گردش نے یہ سب باتیں خواب بنا دی ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ