کھلی لائبریری: کشمیر کے دکھوں کا درمان

شیرِ کشمیر پارک سیاسی کارکنوں کا ہمیشہ مسکن رہا ہے، مگر کتاب بینی کے متلاشی کشمیری نوجوان پارک میں بیٹھ کر اب ہر آنے جانے والے کو اپنی جانب کھینچ رہے ہیں اور ان میں ایک نیا شوق اجاگر کر رہے ہیں۔

14 اکتوبر 2019 کی اس تصویر میں سری نگر میں ایک نوجوان فون پر بات کر رہا ہے جبکہ دوسرا اسے دیکھ رہا ہے (اے ایف پی)

یوں تو سری نگر کا شیرِ کشمیر پارک سیاسی جلسوں، تاریخی عہدو پیمان اور حصولِ حقوق کے مظاہروں کے لیے کافی مشہور ہے، مگر اس پارک کی شناخت اب سیاسی تقریروں کے بجائے ایک کھلی لائبریری کے طور پر ابھر رہی ہے، جو یہاں کے نوجوانوں میں ایک نیا شعور بیدار کرنے میں مدد گار ثابت ہو گی۔

بیشتر اوقات کشمیری نوجوانوں کی شبیہ منفی انداز میں پیش کی جاتی رہی ہے اور اب 10 لاکھ سے زائد افراد کو منشیات کا عادی بھی بنایا جا چکا ہے، حالانکہ اس نے عالمی سطح پر اپنی قابلیت کو منوانے میں کافی پاپڑ بیلے ہیں۔

 یہاں کی 65 فیصد نوجوان آبادی حصولِ تعلیم کے بعد بہترین روزگار کے ساتھ زندگی گزارنے کا خواب پال رہی ہے، مگر ایک لمبے عرصے کی بےیقینی کے باعث اس وقت سکون کی متلاشی نظر آتی ہے۔

گذشتہ ہفتے جب میں سہ پہر کو شیرِ کشمیر پارک سے گزر رہی تھی تو میں نے نوجوانوں کی ایک بڑی ٹولی کو ایک گول دائرے میں کتابیں کھولے پایا، جو آس پاس کی ٹریفک، ریڑھی بانوں کی آوازوں اور شوروغل سے لاپروا ہو کر کتابیں پڑھنے میں محو تھے۔ میں بس دیکھتی رہ گئی اور خاموشی سے اپنے بچپن کو یاد کرنے لگی۔

جب ہم اس پارک میں پکنک کے بہانے آتے تھے اور پورا دن سہیلیوں کے ساتھ تاریخ کے اوراق پر دبے لفظوں میں بحث کیا کرتے تھے۔

کشمیر میں جہاں کہیں بھی چار بچے، بوڑھے، نوجوان اکٹھے ہو جاتے ہیں تو محض اپنی سیاسی تاریخ کو ٹٹولتے رہتے ہیں۔

شیرِ کشمیر پارک سیاسی کارکنوں کا ہمیشہ مسکن رہا ہے یا پھر یہاں دور دراز گاؤں سے لوگ سستانے کے لیے آتے ہیں مگر کتاب بینی کے متلاشی کشمیری نوجوان پارک میں بیٹھ کر اب ہر آنے جانے والے کو اپنی جانب کھینچ رہے ہیں اور ان میں ایک نیا شوق اجاگر کر رہے ہیں۔

میرے لیے یہ منظر اُس دور کی یاد بھی تازہ کر رہا تھا، جب گذشتہ صدی میں مہاراجہ ہری سنگھ کے دورِ اقتدار میں چند پڑھے لکھے نوجوانوں نے ڈاؤن ٹاؤن میں ایک ریڈنگ روم کی بنیاد ڈالی تھی، جس نے بعد میں کشمیر کی نئی قیادت کو جنم دیا، جن میں معروف رہنما شیخ محمد عبداللہ سرفہرست ہیں۔

تاہم شیخ عبداللہ کی سربراہی میں اس قیادت پر الزام ہے کہ جس سیاسی مقصد کے لیے ریڈنگ روم کی بنیاد ڈالی گئی تھی، وہ مقصد برصغیر کے بٹوارے کے وقت اُس وقت فوت ہو گیا، جب جموں و کشمیر کے عوام سے پوچھے بغیر ان کی تقدیر کا فیصلہ کیا گیا۔

شیرِ کشمیر پارک کی کھلی لائبریری سیاست سے پرے نئی نسل میں محض کتاب پڑھنے کا شوق جگانے تک محدود ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈیجیٹل دور میں جہاں موبائل فون نے سب سے پہلا وار کتاب پر کیا اور سب کچھ فون پر دستیاب ہونے کے باعث فون ہی اب کتاب بن گئی ہے، ایسے میں تمام الیکٹرانکس کو چھوڑ کر سرِ راہ کتاب پڑھنا اور دوسروں کو اس کی جانب مائل کرنا نہ صرف قابلِ داد ہے بلکہ اس کلچر کو فروغ دینا ثواب حاصل کرنے کے برابر ہے۔

کھلی لائبریری کا یہ تصور 28 سالہ سافٹ ویئر انجینیئر رضوان الحق نے پیش کیا ہے، جنہوں نے دو سال قبل بنگلور سے واپس آ کر شیرِ کشمیر پارک کا ایک کونہ منتخب کرکے کتاب پڑھنی شروع کی۔

رضوان کہتے ہیں کہ کھلی لائبریری کا یہ تجربہ دنیا کے 60 سے زائد شہروں میں جاری ہے، جن میں ممبئی، دبئی، ملیشیا اور نیویارک قابلِ ذکر ہیں۔ کشمیر میں کھلے مقام پر خاموشی سے کتاب پڑھنے کا یہ تجربہ کافی کامیاب رہا ہے۔ چند گھنٹوں کے لیے ہم سب کو سکرین سے نجات بھی مل جاتی ہے۔

انہوں نے کہا: ’مجھے کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے، میں نے کشمیری نوجوانوں میں کتابوں سے دلچسپی پیدا کرنے کے لیے شیرِ کشمیر پارک کا ایک سِرا چنا، پہلے چند دوستوں کے ہمراہ کتاب پڑھنے لگا، جو آج ایک بڑے کارواں کی شکل اختیار کر چکا ہے، اب دور دراز علاقوں سے طلبہ کتاب لے کر پارک میں آتے ہیں اور چند گھنٹے خاموشی میں رہ کر کتاب پڑھ لیتے ہیں، نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ہر مکتبِ فکر سے وابستہ لوگ شریک ہونے لگے ہیں اور یہ تجربہ عوام میں مقبول ہو رہا ہے۔‘

دائرے میں بیٹھے ایک نوجوان سے میں نے پوچھا کہ پارک کے آس پاس کافی گہما گہمی ہے تو کتاب پر توجہ رکھنا کیسے ممکن ہے؟ وہ میری بات پر مسکرائے اور کہنے لگے: ’یقین مانیے میں گذشتہ برس اس کاروان سے جڑ گیا اور آج تک 50 سے زائد کتابیں پڑھ چکا ہوں، میری اب فون سے دلچسپی بھی ختم ہو گئی ہے اور ٹیلی ویژن تو پہلے ہی چھوٹ گیا ہے، جو جھوٹی خبروں کا ایک صندوقچہ بن کر رہ گیا ہے، سڑک کا یہ شور کبھی متاثر نہیں کرتا۔‘

یہ وہی پارک ہے جہاں آزاد انڈیا کے پہلے وزیراعظم  پنڈت جواہر لال نہرو، شیخ محمد عبداللہ، اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی نے تقریریں کر کے عوام سے بڑے بڑے وعدے کیے، جو آج تک وفا نہ ہوئے، مگر کسی نے یہ صلاح کبھی نہیں دی کہ یہ پارک ایک کھلی لائبریری بھی بن سکتی ہے، جو نوجوانوں میں ایک نئی سوچ کی غماز بن سکتی ہے۔

پنڈت جواہر لال نے جموں و کشمیر کے عوام کو حق خود اداریت کا وعدہ کیا تھا۔ نرسمہا راؤ نے کہا: ’کشمیری آسمان تک کچھ بھی مانگ سکتے ہیں۔‘ شیخ عبداللہ نے عوام کو خودمختار بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اٹل بہاری واجپائی نے جمہوریت، انسانیت اور کشمیریت کا جذبہ جگایا تھا اور موجودہ وزیراعظم نے جموں و کشمیر کی دلی سے دوری ختم کرنے کا عہد کیا تھا۔

اب جب سبھی وعدے کاغذوں میں قید ہو گئے ہیں تو کشمیری اپنی افسردگی چھپانے یا درد کا مداوا کرنے کے لیے کتابوں کا سہارا لینے لگے ہیں اور اپنی شبیہ کو بہتر کرنے کے ایک نئے سفر پر گامزن ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر