'میں مسمی سبزار احمد خان ولد غلام حسن خان عوام الناس کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے کاروبار میں نقصان کی وجہ سے اپنا سب کچھ کھو دیا ہے لیکن ابھی بھی مجھ پر لوگوں کا تقریباً 90 لاکھ روپے کا قرضہ ہے جسے ادا کرنے کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ لوگوں خاص کر گردے کے ضرورت مند افراد سے التماس ہے کہ اگر انہیں گردے کی ضرورت ہو تو مجھ سے رابطہ کریں۔ میں اپنا گردہ بیچ کر قرض چکانا چاہتا ہوں۔'
یہ ایک کلاسیفائیڈ اشتہار کا متن ہے جو گذشتہ روز بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے شائع ہونے والے ایک انگریزی روزنامہ میں اردو زبان میں شائع ہوا ہے۔
اس اشتہار نے جہاں اہلیان کشمیر میں تشویش اور اضطراب کی لہر دوڑا دی ہے وہیں مبصرین کے مطابق اس اشتہار سے اس متنازع خطے کی اقتصادی بدحالی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، جسے یکے بعد دیگرے دو طویل لاک ڈاؤنز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اخبار میں اشتہار شائع کرانے والے 28 سالہ نوجوان سبزار احمد خان جنوبی ضلع کولگام کے علاقے نسو قاضی گنڈ سے تعلق رکھتے ہیں۔ سبزار ایک رجسٹرڈ تعمیراتی ٹھیکیدار ہیں لیکن انہیں سب سے زیادہ نقصان پرانی گاڑیوں اور سیب کی خرید و فروخت کے کاروبار میں ہوا ہے۔
قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دبے سبزار نے پچھلے سال ہی شادی کی ہے اور اب بقول ان کے قرض چکانے کے لیے اپنے والدین اور بیوی کو بتا کر ہی اپنا گردہ بیچنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سبزار احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: 'میں نے کئی بار سوچا کہ خودکشی کرکے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لوں۔ میں نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اگر تم خودکشی کرو گے تو اس سے تمہارا قرض معاف نہیں ہوگا۔ لوگ اور بینک والے تمہارے گھر والوں سے پیسے مانگیں گے اور وہ جیتے جی مر جائیں گے۔ مخلص اور ہمدرد دوستوں نے مجھے صبر کرنے کا مشورہ دیا۔ بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے میرا مذاق اڑایا۔'
'میں بالآخر اس کے لیے مجبور ہوا ہوں کہ میں اپنا ایک گردہ فروخت کرکے قرض اتار دوں گا۔ 90 لاکھ روپے میں سے 61 لاکھ روپے وہ ہیں جو مجھے مختلف بینکوں کو ادا کرنے ہیں۔ باقی 29 لاکھ روپے مجھے ان لوگوں کو ادا کرنے ہیں جنہوں نے مجھے سود کے عوض پیسے ادھار دیے ہیں۔'
سبزار نے بتایا کہ 'میں پچھلے ایک دو سال سے روپوش تھا کیونکہ قرض دہندگان میرے گھر آیا کرتے تھے۔ میں کبھی کبھی چوری چھپے گھر آتا تھا اور چائے پانی پینے کے بعد واپس چلا جاتا تھا۔'
'میں انتہائی ذہنی پریشانی میں مبتلا ہوں۔ شاید یہ سب میرے مقدر میں لکھا تھا۔ آپ میرے علاقے میں میرے بارے میں پوچھ سکتے ہیں۔ میں اپنی زندگی میں کبھی بھی شراب نوشی اور جوے جیسے حرام اور برے کاموں کا مرتکب نہیں ہوا ہوں۔'
سبزار احمد نے بتایا کہ کل جب اشتہار اخبار میں شائع ہوا تو کافی تعداد میں لوگوں نے انہیں فون کرکے مدد کی پیشکش کی۔
'میں زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں لیکن یہ جانتا ہوں کہ جسم کا کوئی بھی حصہ فروخت کرنا اخلاقی اور قانونی طور پر جائز نہیں ہے۔ میں بہت زیادہ مجبور ہوں اسی لیے مجھے اخبار میں اشتہار شائع کرانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آیا۔'
'خالی ہاتھ کاروبار کرنے نکلا تھا'
سبزار احمد نے اپنی زندگی کے سفر کے حوالے سے بتایا: 'میں ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔ آٹھویں جماعت سے ہی میں نے مزدوری شروع کی اور دسویں جماعت میں پڑھائی چھوڑی کیونکہ میرے والد، جو خود پیشے کے اعتبار سے مزدور تھے، بہت بیمار ہو گئے تھے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ مزید بتاتے ہیں: 'کچھ سال مزدوری کرنے کے بعد میں نے تعمیراتی ٹھیکیدار کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد میں نے ٹھیکیداری چھوڑ کر پرانی گاڑیاں خریدنے اور بیچنے کا کاروبار اختیار کیا۔ میں نے اس کاروبار کو چلانے کے لیے بینک سے قرض لیا، لیکن اس کاروبار میں میرا نقصان ہوا۔'
'میں نے پچھلے سال کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد جاری لاک ڈاؤن کے دوران ہزاروں ٹن سیب خریدے۔ اس میں بھی مجھے بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔'
سبزار احمد کے بقول وہ خالی ہاتھ کاروبار کرنے نکلے تھے جو آج کل مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
انہوں نے بتایا:: 'میں خالی ہاتھ کاروبار کرنے لگا تھا جو موجودہ وقت میں مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ میں نے لوگوں سے سود کے عوض لاکھوں روپے قرض لیا۔ میرے لیے یہ قرض ادا کرنا مشکل ہے۔ کرونا وائرس لاک ڈاؤن کے دوران میں بالکل بھی کوئی پیسہ نہیں کما سکا۔'
'گردہ بیچنا ایک غیر قانونی فعل'
بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کے ایک ہسپتال میں تعینات ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'پیسوں کے عوض جسم کا کوئی بھی حصہ بشمول گردہ بیچنا ایک غیر اخلاقی اور غیر قانونی فعل ہے۔'
'ہمارے ملک میں صرف قریبی رشتہ دار ہی ڈاکٹروں کی اجازت ملنے پر گردہ عطیہ کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی قریبی رشتہ دار نہیں ہے اور کوئی گردہ عطیہ کرنا چاہتا ہے تو اسے مجاز اتھارٹی کی اجازت حاصل کرنی ہوگی۔'
دوسری جانب سری نگر سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ نے 'گردے کی فروخت' سے متعلق اشتہار کی اشاعت پر معافی مانگی ہے۔
مذکورہ اخبار نے منگل کو صفحہ اول پر لکھا: 'اشتہاری سیکشن میں گردے کی فروخت سے متعلق اشتہار شائع کرنے پر معافی چاہتے ہیں۔ ہمارا اخبار اس طرح کے کسی بھی غیر اخلاقی عمل کی حمایت نہیں کرتا ہے۔ انسانی غلطی کی وجہ سے یہ اشتہار شائع ہو گیا۔'
ایک کشمیری تاجر لیڈر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پچھلے 15 ماہ میں دو طویل لاک ڈائونز کی وجہ سے بہت سے کاروباری افراد صفر پر آ چکے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا: 'میں سبزار احمد کو ذاتی طور پر نہیں جانتا، لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ ہمارے ہزاروں کاروباری افراد سخت پریشان ہیں اور نوبت یہاں تک آگئی ہے۔