جاپان: ہیروشیما ایٹم بم حملے کے 80 سال بعد لاپتہ متاثرین کی تلاش

ہیروشیما یونیورسٹی کے محقق ریبون کا یو، جو باضابطہ طور پر نینوشیما جا کر باقیات تلاش کرتے ہیں، نے اس بارے میں واضح الفاظ میں کہا کہ ’جب تک یہ ہو نہیں جاتا ان لوگوں کے لیے جنگ ختم نہیں ہو گی۔‘

ہیروشیما یونیورسٹی کے ایک محقق ریبن کیو مغربی جاپان کے شہر ہیروشیما کے قریبی جزیرے نینوشیما میں 1945 کے ہیروشیما بمباری کے متاثرین کی باقیات تلاش کر رہے ہیں (ایسوسی ایٹڈ پریس / یوجین ہوشیکو)

80 برس قبل جاپان کے شہر ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا گیا۔ اس حملے کے بعد ہیروشیما کے جنوب میں واقع چھوٹے سے دیہی جزیرے نینوشیما میں عارضی ہسپتال قائم کیا گیا جہاں مناظر خوفناک تھے۔

ایٹمی حملے کے بعد جان سے جانے والے ہزاروں افراد اور متاثرین کو فوجی کشتیوں کے ذریعے کو اس ہسپتال میں لایا گیا۔ فوجی کشتیاں جن کے عملے کو خود کش مشن کی تربیت دی گئی تھی، ساحل پر آ کر رکیں۔

یہ تکلیف کا ناقابل تصور منظر تھا۔ ایٹمی حملے کے بہت سے متاثرین کے کپڑے جل چکے تھے۔ چہرے اور ہاتھوں پیروں کا گوشت لٹک رہا تھا اور درد کی وجہ سے ان کی چیخیں فضا میں پھیل گئیں۔

تاریخی ریکارڈ کے مطابق ناکافی ادویات اور دیکھ بھال کے باعث جب 25 اگست کو فیلڈ ہسپتال بند ہوا تو صرف چند سو افراد زندہ بچے تھے۔

ان کی تدفین افراتفری اور عجلت میں ہوئی، لاشیں مختلف جگہوں پر دفن کی گئیں۔

دہائیوں بعد بھی لاپتہ افراد کی باقیات کی تلاش جاری ہے، جسے متاثرین کی گنتی اور ان کی عزت کے جذبے نے زندہ رکھا۔

یہ کوششیں ان زندہ بچ جانے والوں کے لیے بھی سکون کی تلاش ہیں، جو اب تک اپنے پیاروں کی یادوں میں تڑپتے ہیں۔

ہیروشیما یونیورسٹی کے محقق ریبون کا یو، جو باضابطہ طور پر نینوشیما جا کر باقیات تلاش کرتے ہیں، نے اس بارے میں واضح الفاظ میں کہا کہ ’جب تک یہ ہو نہیں جاتا ان لوگوں کے لیے جنگ ختم نہیں ہو گی۔‘

لاپتا افراد کے شواہد اب بھی سامنے آ رہے ہیں

حال ہی میں ایک صبح کایو اس جنگل کے ایک پہاڑی حصے میں گئے جہاں وہ 2018 سے باقیات تلاش کر رہے ہیں۔ انہوں نے ربڑ کے جوتے اور ہیلمٹ پہنے اور کیڑے مار سپرے کیا۔

گل داؤدی کے پودے لگا کر اور دعا کرنے کے بعد کایو نے احتیاط سے باتھ ٹب جتنے گڑھے سے بجری نکالنا شروع کی۔ جب مٹی کافی نرم ہو گئی تو انہوں نے ہڈیوں کے ٹکڑے تلاش کرنے کے لیے اسے چھانا۔

تیز دھوپ میں کام کرتے ہوئے وہ یہ سوچتے رہے کہ مرنے والوں نے دم توڑتے وقت کیسا درد اور غم محسوس کیا ہو گا۔

اب تک کایو تقریباً  ہڈیوں کے 100 ٹکڑے تلاش کر چکے ہیں، جن میں کھوپڑی کے حصے اور ایک شیر خوار بچے کے جبڑے کی ہڈی بھی شامل ہے جس میں دانت موجود تھے۔

انہیں یہ ہڈیاں اس علاقے میں ملیں جس کی نشاندہی نینوشیما کے ایک رہائشی نے کی تھی جن کے والد نے 80 سال پہلے فوجیوں کو ہیر وشیما سے کشتیوں میں لائی گئی لاشیں دفناتے دیکھا۔

انہوں نے اس ہڈی جو غالباً کسی چھوٹے بچے کی تھی، کے بارے میں کہا کہ ’یہ ننھا بچہ یہاں اتنے برسوں سے اکیلا پڑا ہے۔ یہ برداشت سے باہر ہے۔‘

متاثرین بمباری کے افراتفری بھرے حالات میں پہنچے تھے۔

امریکہ کے ایٹمی حملے نے ہیروشیما کو آناًفاناً تباہ کر دیا اور شہر کے مرکز کے قریب، جو نینوشیما سے تقریباً 10 کلومیٹر (6 میل) دور شمال میں ہے، ہزاروں افراد کو موقع پر ہی جان سے گئے۔ سال کے آخر تک اموات کی تعداد 140000 ہزار تک پہنچ گئی۔

تامی کو سورا، جو اس وقت تین سال کی تھیں، اپنے والدین اور دو بہنوں کے ساتھ اپنے گھر میں موجود تھیں جو مرکز سے صرف 1.4 کلومیٹر (0.9 میل) کے فاصلے پر تھا۔ دھماکے سے ان کا گھر تباہ ہو گیا اور سورا کا چہرہ جل گیا، تاہم ان کے خاندان کے زیادہ تر افراد بچ گئے۔

جب وہ رشتے دار کے گھر کی طرف جا رہے تھے تو سورا کی ملاقات ایک پانچ سالہ بچی سے ہوئی جس نے اپنا نام ہیروکو بتایا اور ایک خاتون سے جو بری طرح جھلس گئی تھیں اور زور دے کر لوگوں سے کہہ رہی تھی کہ وہ ان کے پاس موجود بچے کو بچا لیں۔ سورا آج بھی اکثر ان لوگوں کو یاد کرتی ہیں اور افسوس کرتی ہیں کہ ان کا خاندان ان کی مدد نہ کر سکا۔ ان کے خاندان نے یتیم خانوں میں بھی تلاش کیا مگر وہ بچی نہ مل سکی۔

اب سورا کو لگتا ہے کہ اس دن وہ جن لوگوں سے ملیں اور ان کی لاپتہ ہو جانے والی خالہ اور ماموں شاید آخرکار نینوشیما پہنچ گئے ہوں گے۔

نینوشیما نے تین ہفتے افراتفری، اموات اور عجلت میں کی گئی تدفین دیکھی۔

دھماکے کے دو گھنٹے کے اندر ہی متاثرین ہیروشیما سے کشتیوں کے ذریعے جزیرے کے نمبر دو قرنطینہ مرکز پہنچنا شروع ہو گئے۔ عمارتیں شدید زخمی مریضوں سے بھر گئیں۔ بہت سے لوگ راستے میں ہی دم توڑ گئے۔

ہیروشیما شہر سے متعلق دستاویزات کے مطابق شاہی فوج کے اہلکار جزیرے پر ہر وقت شفٹوں میں لاشوں کی آخری رسومات اور تدفین میں مصروف رہے۔

 18 سالہ ایکوگیشی جو اس زیرتربیت ملاح تھے، مریضوں کو گھاٹ سے قرنطینہ والے علاقے تک ابتدائی طبی امداد کے لیے لے جانے کے عمل کی نگرانی کرتے تھے۔ انہوں نے اور دیگر فوجیوں نے بانس کاٹ کر پیالے اور ٹرے بنائے۔ زخمیوں میں سے بہت سے پانی پینے کے فوراً بعد دم توڑ گئے۔

شہر کی جانب سے برسوں بعد شائع ہونے والی یادداشتوں میں گیشی نے لکھا کہ شروع میں فوجی لاشوں کو ایک ایک کر کے احتیاط سے سنبھالتے تھے، لیکن جلد ہی گلتی سڑتی لاشوں کی بڑی تعداد نے انہیں مغلوب کر دیا اور وہ اس بھٹی کو استعمال کرنے لگے جو اصل میں فوجی گھوڑوں کے لیے تھی۔

یہ بھی ناکافی ثابت ہوئی اور جلد ہی جگہ ختم ہو گئی، جس کے بعد لاشوں کو بم حملے سے بچنے کے لیے حفاظت گاہوں اور تدفین کے لیے لگائے گئے لاشوں کے ڈھیروں میں رکھنا پڑا۔
سابق فوجی طبی عملے کے رکن یوشیتاکا کوہارا نے 1992 میں لکھا کہ ’جب میں نے پہلا گروپ دیکھا جو جزیرے پر پہنچا تو میں صدمے سے گنگ رہ گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں میدان جنگ میں بری طرح زخمی ہونے والے کئی فوجیوں کو دیکھنے کا عادی تھا، مگر کبھی کسی کو اتنی اذیت ناک اور المناک حالت میں نہیں دیکھا تھا۔ یہ جہنم تھا۔‘

کوہارا اس سہولت میں اس کی بندش تک موجود رہے جب صرف تقریباً 500 افراد زندہ بچے تھے۔ جب انہوں نے زندہ بچ جانے والے متاثرین کو بتایا کہ جنگ 15 اگست کو ختم ہو گئی تو انہیں یاد ہے کہ سب کے چہرے بے تاثر تھے اور ’ویران آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، اور کسی نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔‘

نینوشیما سے ہزاروں باقیات ملی ہیں مگر اب بھی بہت سے افراد لاپتہ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کازوؤ میازاکی، جو نینوشیما کے پیدائشی مورخ اور رہنما ہیں، نے کہا کہ دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے قریب اس جزیرے کو خودکش حملہ آوروں کی تربیت کے لیے استعمال کیا گیا جو لکڑی کی کشتیوں کے ذریعے فلپائن کے سمندر اور اوکیناوا میں تعیناتی کے لیے تیار کیے جاتے تھے۔

میازاکی کا کہنا تھا کہ ’ہیروشیما شروع سے امن کا شہر نہیں تھا۔ اصل میں یہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ یہ لازم ہے کہ آپ بزرگ نسل سے سیکھیں اور یہ سبق اگلی نسل تک پہنچاتے رہیں۔‘

77 سالہ میازاکی نے ایٹمی حملے میں اپنے کئی رشتہ داروں کو کھویا۔ انہیں اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے نینوشیما میں پیش آنے والے واقعات کی عینی شاہدین کی کہانیاں سننے کا موقع ملا، جہاں جاپان کی عسکری توسیع کے دور میں ایک بڑا فوجی قرنطینہ مرکز تھا۔ ان کی والدہ فوجی نرس تھیں جو جزیرے کے فیلڈ ہسپتال میں تعینات رہیں۔

1947 کے بعد سے ایٹمی حملے کے 3000 متاثرین جنہیں نینوشیما لایا گیا، کی باقیات مل چکی ہیں۔ بہت سی باقیات بم حملے سے بچنے کے لیے بنائی گئی پناہ گاہوں سے ملیں۔ مزید ہزاروں لوگوں کو لاپتہ تصور کی جاتا ہے۔

لوگ لاپتہ افراد کی یاد میں جزیرے پر جاتے ہیں

نینوشیما میں باقیات کی تلاش کے بارے میں جاننے کے بعد، سورا، جو ایٹمی حملے میں زندہ بچ گئی تھیں اور دھماکے کے بعد جس بچی اور شیر خوار بچے سے ملی تھیں، دو بار جزیرے پر گئیں اور مرنے والوں کی یادگار پر دعا کی۔

سورا نے کہا کہ ’مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ میرا انتظار کر رہے ہیں۔ جب میں دعا کرتی ہوں تو اپنے رشتہ داروں کے نام لیتی ہوں، انہیں بتاتی ہوں کہ میں ٹھیک ہوں اور انہیں خوشی کرنے والی باتیں سناتی ہوں۔‘

حال ہی میں سورا سے ان کے نرسنگ ہوم میں ملاقات کے دوران محقق کایو پلاسٹک کا ایک ڈبہ لے کر آئے جس میں اس شیر خوار بچے کا جبڑا اور کھوپڑی کے ٹکڑے تھے جو انہیں نینوشیما میں ملے۔ ہڈیاں نرم روئی پر احتیاط سے رکھی گئی تھیں۔

کایو نے کہا کہ وہ سورا کو یہ نازک باقیات دکھانا چاہتے تھے، جو شاید اسی عمر کے بچے کی ہوں جس سے سورا اسی برس پہلے ملی تھیں۔ وہ ان ہڈیوں کو آخرکار کسی بدھ مندر میں لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

سورا نے ڈبے میں رکھی ہڈیوں کو دیکھتے ہوئے خاموشی سے دعا کی اور پھر ان سے مخاطب ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے بہت خوشی ہے کہ آخرکار تمہیں ڈھونڈ لیا گیا۔ خوش آمدید۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا