غزہ کے سینکڑوں بیمار بچوں کو علاج کے لیے برطانیہ منتقل کرنے کا منصوبہ

غزہ کے صحت کے حکام کے مطابق اسرائیلی ناکہ بندیوں کی وجہ سے غذائی قلت سے 160 سے زائد اموات ہو چکی ہیں جن میں 92 بچے شامل ہیں۔

2 اگست 2025 کو غزہ میں غذائی قلت کا شکار نو سالہ فلسطینی بچی مریم داؤس ایک گدے پر لیٹی ہے  (اے ایف پی)

ایک رپورٹ کے مطابق غزہ کے سینکڑوں شدید بیمار بچوں کو علاج کے لیے برطانیہ منتقل کیا جائے گا جہاں انہیں نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے ذریعے طبی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ اس منصوبے کا باضابطہ اعلان آئندہ چند ہفتوں میں متوقع ہے۔

ایک سینیئر حکومتی ذرائع نے دی ٹائمز کو بتایا کہ 300 کے قریب بچے اس سکیم کے تحت برطانیہ آئیں گے جہاں ان کا مفت علاج کیا جائے گا۔

یہ منصوبہ ’پروجیکٹ پیور ہوپ‘ نامی ایک علیحدہ پروگرام کے ساتھ متوازی طور پر چلے گا، جسے مکمل طور پر نجی عطیات سے چلایا جا رہا ہے۔

اکتوبر 2023 میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے صرف تین بچوں کو اس سکیم کے تحت برطانیہ کے طبی ویزے جاری کیے گئے ہیں۔

یہ خبر ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب غزہ میں قحط اور بھوک کی سنگین صورت حال ہے۔ غزہ کے صحت کے حکام کے مطابق پٹی کی جزوی اور مکمل اسرائیلی ناکہ بندیوں کی وجہ سے غذائی قلت سے 160 سے زائد اموات ہو چکی ہیں جن میں 92 بچے شامل ہیں۔

یونیسف کے نائب ایگزیکٹو ڈائریکٹر برائے انسانی امداد ٹیڈ چائبن نے کہا کہ ان کے حالیہ دورہ اسرائیل، غزہ اور مغربی کنارے کے بعد یہ واضح ہوا ہے کہ تین لاکھ 20 ہزار سے زائد بچے شدید غذائی قلت کے خطرے سے دوچار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں غذائی قلت کی صورت حال ’قحط کی حد‘ سے تجاوز کر چکی ہے۔

گذشتہ ماہ برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے وعدہ کیا تھا کہ شدید زخمی بچوں کو غزہ سے نکال کر برطانیہ لایا جائے گا۔

انہوں نے دی مرر میں لکھا: ’مجھے معلوم ہے کہ برطانوی عوام غزہ میں جاری صورت حال سے دل گرفتہ ہیں۔ قحط اور بے بسی کی تصاویر دل دہلا دینے والی ہیں۔ ہم غزہ سے ان بچوں کی فوری منتقلی کی کوششیں تیز کر رہے ہیں جنہیں فوری طبی امداد کی ضرورت ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دی ٹائمز کے مطابق 100 سے زائد ارکان پارلیمنٹ نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ اس سکیم کو فوری طور پر شروع کرے۔

لیبر پارٹی کی رکن پارلیمنٹ سٹیلا کریسی نے اس بارے میں کہا: ’ہم سب ان بچوں کی مدد کے لیے پُرعزم ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بچے متاثر ہو رہے ہیں یا موت کے منہ میں جا رہے ہیں، اس لیے امداد کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنا ناگزیر ہے۔ ہم ہر ممکن مدد کے لیے تیار ہیں اور حکومت سے فوری اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘

ادھر اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ میں بڑے پیمانے پر قحط کی خبریں درست نہیں۔ ان کے مطابق جہاں بھوک کی شدت زیادہ ہے، وہ فلسطینی تنظیم حماس کی جانب سے امداد کی چوری اور اقوام متحدہ کی امدادی فراہمی میں ناکامی کا نتیجہ ہے۔

مگر اقوام متحدہ کی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے، جو کبھی غزہ میں انسانی امداد کی سب سے بڑی فراہم کنندہ تھی، اب مکمل طور پر نظر انداز کر دی گئی ہے۔ اس کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے جمعے کو بتایا کہ ایجنسی کے چھ ہزار ٹرک امداد لے کر غزہ کے باہر اسرائیلی اجازت کے منتظر کھڑے ہیں۔

ہفتے کو عینی شاہدین اور طبی عملے نے بتایا کہ اسرائیلی فورسز نے دو امریکی حمایت یافتہ امدادی مراکز کے قریب فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں مزید 10 فلسطینی جان سے گئے۔ یہ لوگ امداد کے حصول کے لیے وہاں جمع ہوئے تھے۔

یہ واقعہ ایک دن بعد پیش آیا جب امریکی حکام نے ان مراکز کا دورہ کیا اور امریکی سفیر نے اسے ’قابل تحسین اقدام‘ قرار دیا۔

امریکی اور اسرائیلی حمایت یافتہ امدادی تنظیم ’غزہ ہیومنٹیریئن فاؤنڈیشن‘ نے اقوام متحدہ کے اس الزام کی تردید کی ہے کہ امداد کی تقسیم کے طریقہ کار کی وجہ سے اموات ہوئی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس کے مراکز پر کوئی فلسطینی قتل نہیں ہوا۔

غزہ کی وزارت صحت کے ایمبولینس اور ایمرجنسی سروس کے سربراہ فارس عواد نے کہا کہ اسی روز زیکیم کراسنگ کے قریب امداد کی امید لیے جمع ہونے والے مزید 19 افراد اسرائیلی فائرنگ سے مارے گئے۔

اسی دوران حماس نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا کہ وہ جنگ اس وقت تک جاری رکھے گی جب تک ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوتی، جو اسرائیل کی جانب سے جنگ کے خاتمے کے لیے بنیادی مطالبے کی نفی ہے۔

حماس کے بیان میں کہا گیا: ’ہم اس وقت تک مسلح جدوجہد جاری رکھیں گے جب تک بیت المقدس کے دارالحکومت کے ساتھ ایک مکمل خودمختار فلسطینی ریاست تسلیم نہیں کی جاتی۔‘

دوسری جانب اسرائیل کا مؤقف ہے کہ جنگ کے خاتمے کے لیے حماس کو غیر مسلح کرنا ضروری ہے لیکن حماس متعدد بار واضح کر چکی ہے کہ وہ اپنے ہتھیار نہیں ڈالے گی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا