سرینگر میں ایک شخص سات اگست، 2025 کو سڑک کنارے کتابوں کی ریڑھی کے پاس سے گزر رہا ہے (اے ایف پی)
حکام نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں 25 کتابوں پر پابندی لگا دی جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ متنازع علاقے میں ’جھوٹے بیانیے‘ اور ’علیحدگی پسندی‘ کو فروغ دے رہی ہیں۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حالیہ برسوں میں میڈیا پر پابندیاں سخت ہوئی ہیں۔ اس پابندی کے تحت ایسی کتابیں فروخت کرنے یا اپنے پاس رکھنے والوں کو جیل کی سزا کا خطرہ ہے۔
جن مصنفین کی کتابوں پر پابندی لگی ہے ان میں بُکر انعام یافتہ ناول نگار اور سماجی کارکن اروندھتی رائے، آئینی امور کے ماہر اے جی نورانی اور ممتاز ماہرین تعلیم و تاریخ دان سمنترا بوس، کرسٹوفر سنیڈن اور وکٹوریا شوفیلڈ شامل ہیں۔
تازہ حکم منگل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے محکمہ داخلہ نے جاری کیا جو براہ راست لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے ماتحت ہے۔ وہ کشمیر میں دہلی کے اعلیٰ ترین منتظم ہیں۔
منوج سنہا کو مرکزی حکومت کے نمائندے کی حیثیت سے خطے میں نمایاں اختیارات حاصل ہیں جب کہ منتخب حکام تقریباً بے اختیار حکومت چلا رہے ہیں جو گذشتہ سال اس وقت اقتدار میں آئی جب انڈیا کی جانب سے 2019 میں متنازع علاقے کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد پہلی بار انتخابات ہوئے۔
تازہ حکم میں ان 25 کتابوں کو انڈیا کے نئے فوجداری قانون 2023 کے تحت ’ضبط‘ شدہ قرار دیا گیا جس سے یہ کتابیں ہمالیائی خطے میں گردش، ملکیت اور رسائی کے لیے عملاً ممنوع ہو گئیں۔
اس قانون کی مختلف دفعات کے تحت ضبط شدہ کتابوں سے متعلق جرائم پر تین سال، سات سال حتیٰ کہ عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اگرچہ ابھی تک کسی کو اس کے قانون تحت جیل نہیں بھیجا گیا۔
ہوم ڈیپارٹمنٹ نے اپنے نوٹس میں کہا کہ ’جن 25 کتابوں کی نشاندہی کی گئی انہیں علیحدگی پسندی کو ہوا دینے اور انڈیا کی خود مختاری و سالمیت کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔‘
نوٹس میں کہا گیا کہ ایسی کتابیں ’نوجوانوں کو گمراہ کرنے، دہشت گردی کو جواز فراہم کرنے اور انڈین ریاست کے خلاف تشدد کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔‘
نوٹس میں کہا گیا کہ یہ کارروائی ’تحقیقات اور مصدقہ معلومات‘ کے بعد کی گئی جن کے مطابق ’جھوٹے بیانیے اور علیحدگی پسند لٹریچر کے منظم پھیلاؤ‘ کی نشاندہی ہوئی جو اکثر ’تاریخی یا سیاسی تبصرے کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔‘
انڈیا کشمیر میں اختلاف رائے کو دبانے کے اقدامات کر رہا ہے۔ 2019 کے بعد سے حکام نے اختلاف رائے کو بدتدریج جرم قرار دیا اور کشمیر پر انڈیا کی حاکمیت پر سوال اٹھانے والے کسی بھی بیانیے کے لیے کوئی برداشت نہیں دکھائی۔
فروری میں پولیس نے کتابوں کی دکانوں پر چھاپے مارے اور علاقے کی ایک بڑی اسلامی تنظیم سے جڑی سینکڑوں کتابیں ضبط کر لیں۔
2011 میں پولیس نے کشمیر کے تعلیمی حکام کے خلاف اس وقت مقدمہ درج کیا جب پہلی جماعت کی ایک کتاب میں ’ظالم‘ کے لفظ کی وضاحت ایک ایسے خاکے کے ساتھ کی گئی تھی جو پولیس اہلکار سے مشابہت رکھتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے ایک سال قبل پولیس نے ایک کالج لیکچرر کو اس الزام میں گرفتار کیا کہ انہوں نے اپنے طلبہ کو انگریزی کے امتحان میں ایسے سوالات دیے جن میں علاقے میں انڈین حکمرانی کے خلاف مظاہروں پر کریک ڈاؤن پر تنقید کی گئی۔
کچھ مقدمات میں ملزموں کو پولیس تفتیش کے بعد رہا کر دیا گیا لیکن ان میں سے زیادہ تر مقدمے انڈیا کے بدنام زمانہ سست عدالتی نظام میں اب تک زیر التوا ہیں۔
کشمیر میں مزاحمتی تحریک کے اہم رہنما میر واعظ عمر فاروق نے کتابوں پر پابندی کی مذمت کی۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’نامور دانش وروں اور معتبر تاریخ دانوں کی کتابوں پر پابندی لگانے سے نہ تو تاریخی حقائق مٹائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی کشمیری عوام کی جیتی جاگتی یادیں ختم ہو سکتی ہیں۔‘
انہوں نے حکام سے سوال کیا کہ ایک طرف تو ادب سے وابستگی دکھانے کے لیے کتابوں کا میلہ منعقد کیا جا رہا ہے جب کہ دوسری طرف بعض کتابوں پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔
’اس طرح کے جابرانہ اقدامات سے ان کے پیچھے موجود لوگوں کی غیر یقینی کیفیت اور محدود سوچ ہی ظاہر ہوتی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہ کتاب میلہ منعقد کرنے پر فخر کرنے میں کس قدر تضاد ہے۔‘
انڈیا میں کتابوں پر پابندی شاذ و نادر ہی لگتی ہے لیکن میڈیا پر گرفت مضبوط کر دی گئی ہے۔
انڈیا میں کتابوں پر پابندی عام بات نہیں لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت میں حکام نے آزاد میڈیا ہاؤسز پر چھاپے مارنے، صحافیوں کو جیل بھیجنے اور سکول اور یونیورسٹی کی نصابی کتب میں تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں تاکہ ان کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہندو قوم پرستانہ نظریے کو فروغ دیا جا سکے۔