انڈیا: قلعہ گولکنڈہ جہاں دوست دشمن کی آمد پر تالیاں بجائی جاتی تھیں

انڈیا کے جنوبی شہر حیدرآباد میں قطب شاہی سلاطین نے قلعہ گولکنڈہ میں ایک ایسا مواصلاتی نظام تشکیل دیا تھا جس میں تالیوں کا استعمال الرٹ سسٹم کے طور پر کیا جاتا تھا۔

تالیوں کا استعمال دورِ حاضر میں ستائش اور حوصلہ افزائی کے لیے کیا جاتا ہے، تاہم عہد وسطی میں سلاطین کے دربار اور محلات میں تالیوں کا استعمال پیغام رسانی اور حکم بجا لانے کے لیے کیا جاتا تھا۔

انڈیا کے جنوبی شہر حیدرآباد میں قطب شاہی سلاطین نے قلعہ گولکنڈہ میں ایک ایسا مواصلاتی نظام تشکیل دیا تھا جس میں تالیوں کا استعمال الرٹ سسٹم کے طور پر کیا جاتا تھا۔

قلعہ گولکنڈہ شہر حیدرآباد کے مغرب میں تقریباً دس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک پہاڑی پر واقع ہے۔ یہ قلعہ کبھی قطب شاہی سلاطین کا مرکز رہا ہے۔ قطب شاہی خاندان نے 1400 سے 1687 تک جنوبی ہندوستان کے ایک بڑے حصے پر حکومت کی ہے۔

گولکنڈہ قلعہ میں حفاظتی نقطہ نظر سے مواصلاتی الرٹنگ سسٹم تیار کیا تھا۔

تقریباً 11 سو عیسوی صدی میں راجا کاکتیا نے قلعہ گولکنڈہ کی بنیاد رکھی تھی، تاہم اس کی تعمیر عرصہ دراز تک ہوتی رہی۔

بہمنی بادشاہوں اور قطب شاہی سلاطین نے اس کی تعمیر اور مرمت میں حصہ لیا جبکہ قطب شاہی سلاطین نے گولکنڈہ قلعہ کی فصیل کو سنگین بنایا۔ اس کو سلطنت کی مرکزی حیثیت دی اور یہ حکومت کے اہم ترین قلعوں میں شمار ہونے لگا۔ یہ قلعہ آج بھی اپنی خوش حال وراثت  اور تاریخ کی ان سنی کہانیوں کو بیان کرتا ہے۔

حیدرآبادی مورخ سجاد شاہد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ قلعہ گولکنڈہ پہلے اینٹ اور مٹی سے بنایا گیا تھا اور قلعے کو بہمنی حکومت کی نذر کیا۔

تلنگانہ میں جب قطب شاہی سلطنت قائم ہوئی تو سلطان قلی قطب نے قلعے کو اپنا مستقل ٹھکانا بنایا۔ قطب شاہ کا دوسرا بیٹا ابراہیم قطب شاہ تخت نشین ہوا تو انہوں نے قلعے کو مضبوط کیا۔ عالیشان محلات بنائے اور قلعے کو مزید وسیع کیا۔

انہوں نے آٹھ ہزار گز کی دیوار بنوائی جس میں آٹھ دروازے ہیں اور قلعے کی حفاظت کے لیے ایک خندق بھی تیار کر دی گئی۔

’جب اورنگ زیب نے قلعہ گولکنڈہ کو فتح کرنا چاہا تو کہی مہینے صرف کیے۔ آٹھ مہینوں تک قلعے کا محاصرہ رہا لیکن قلعہ فتح نہ ہوسکا۔ اس کی مضبوطی توپ کے گولوں کا مقابلہ کرتی رہی۔ تاہم حفاظتی دستے کے سربراہ کی دھوکہ دہی کی وجہ سےاورنگ زیب قلعہ کو فتح کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ جس دروازے سے مغل افواج گولکنڈہ قلعہ میں داخل ہوئیں، اس کا نام اورنگ زیب نے اپنی فتح کی یادگار میں فتح دروازہ رکھا۔‘

گولکنڈہ صرف ایک قلعے کا نام نہیں دراصل یہ ایک تہذیب و تمدن کا نام ہے۔ دستبر در زمانے کے باوجود اب بھی اپنی بلندی اور شان و شوکت کے باعث دیکھنے کے قابل ہے۔ ملک و بیرون ملک سے ہزاروں کی تعداد میں سیاح روزانہ اس قلعے کو دیکھنے آتے ہیں اور وہ اس ساؤنڈ الارم سسٹم کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ وہ ہالز جہاں عوامی اجتماعات اور فوجی ٹھہرتے تھے، اس طرح سے ڈیزائن کیے گئے ہیں کہ ان کی طرف سے کی جانے والی سرگوشیاں بھی بادشاہ اپنے حجرے میں سن سکتا تھا۔

سجاد شاہد کہتے ہیں کہ جہاں بڑی تعداد میں لوگ نماز یا دربار کے لیے جمع ہوا کرتے تھے وہاں یہ سسٹم ضروری تھا کیونکہ اس زمانے میں مائیکروفون نہیں تھا۔ عمارتوں کو اس طرح ڈیزان کیا جاتا کہ ایک مخصوص جگہ پر کھڑا ہو کر کوئی کچھ کہے تو عمارت کے کونے کونے میں آواز کو سنا جا سکتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قطب شاہیوں نے آواز کے ذریعے اوپر بیٹھے لوگوں کو ہوشیار یا آگاہ کرنے کا ایک انوکھا سسٹم تیار کیا تھا اور یہ کارآمد ہوا ہوگا اسی لیے یہ روایت آج تک جاری ہے۔

قلعے میں صوت سازی کا انتظام کچھ ایسا ہے کہ ہر آنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ دروازے پر تالیاں بجانے کی آواز ’بالا حصار‘ پر سنی جا سکتی ہے جو سب سے اونچا مقام ہے اور تقریباً ایک کلومیٹر دور ہے۔

یہ نظام مواصلاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا خاص طور پر کسی بھی حملے کی صورت میں بادشاہ کو خبردار کرنے کے لیے۔

سجاد شاہد کے بقول: ’اب تو صرف تالیوں کی آواز سنائی دیتی ہے لیکن پرانے لوگوں سے سنا ہے اور یہ صیح بھی ہوگا کہ نیچے سے اونچی آواز میں کوئی اعلان کر دے تو وہ اوپر صاف صاف سنائی دیتا۔ اطراف کی ساونڈ یا ’بیک گراونڈ‘ کی ساونڈ زیادہ ہو گئی ہے تو ہماری سماعت کے لیول بگڑ گئے ہیں۔ اب دور کی آواز کم سنائی دیتی ہے اور قریب کی آواز زیادہ سنائی دیتی ہے۔ اُس زمانے میں ایسا نہیں تھا کیونکہ نہ ٹریفک تھی اور نہ شور شرابا۔ یہ محلات کا علاقہ ہے جہاں حد ادب مقرر ہوتی تھی۔ اونچی آواز میں کوئی بات نہیں کر سکتا تھا، تو اس خاموشی میں یہ آواز بہت دور تک جا سکتی تھی۔‘

استعمال شدہ تکنیک سے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ قلعے کے مین گیٹ کے برآمدے کی چھت کو ’ڈائمانڈ شیپیڈ انڈینٹیشن (ہیرے کی طرح)‘ میں ڈیزائن کیا گیا ہے جس کی وجہ سے آواز اپنی شدت کھوئے بغیر ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر کرتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا