حیدر آباد کا پکا قلعہ تاریخ کے اوراق میں گم ہونے لگا

سندھ کی تاریخ میں اپنا الگ مقام رکھنے والا یہ قلعہ تجاوزات کی وجہ سے خستہ حالی کا شکار ہے۔

سندھ کے شہر حیدرآباد میں کئی حکمرانوں کے زیر استعمال رہنے والا 260 سال پرانا پکا قلعہ تاریخ کے اوراق میں گم ہوتا جا رہا ہے۔

سندھ کی تاریخ میں اپنا الگ مقام رکھنے والا یہ قلعہ تجاوزات کی وجہ سے خستہ حالی کا شکار ہے۔

محکمہ آثار قدیمہ کے ایک افسر عامر احمد میمن نے بتایا کہ قعلے کو 1768 میں میاں غلام شاہ کلہوڑو نے تعمیر کروایا تھا، جس کا مقصد لوگوں کے فیصلے کرنا اور صوبے کے تمام امور چلانا تھا۔

’کلہوڑو اور میروں نے قلعے میں رہ کر صوبے پر حکمرانی کی اور میر کرم اللہ ٹالپر، میر فتح ٹالپر اور دیگر یہاں سے حکمرانی اور فیصلے کیا کرتے تھے۔‘

انہوں نے حیدرآباد کی بلند ترین پہاڑی پر تعمیر قلعے کا دوسرا مقصد یہ بتایا کہ علاقے میں سیلاب آنے کی صورت میں لوگ اس میں پناہ لیتے تھے۔

عامر میمن کے مطابق تقریباً 36 ایکڑ پر پھیلے قلعے کی دیواروں کی چوڑائی 10 فٹ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا انگریز سرکار نے آنے کے بعد اپنے حساب سے اس قعلے میں کام کروایا اور اسے اپنے دفاتر کے طور پر استعمال کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عامر میمن نے بتایا کہ پاکستان بننے کے بعد اس تاریخی قلعے پر تجاوزات قائم ہونے لگیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تقریباً 700 سے 1000 گھر قلعے کے حدود میں بنے ہوئے ہیں۔

’یہاں پر گول دائرے میں دکانیں ہیں اوپر شاہی بازار سے لے رکشہ سٹیشن تک گھر، دکانیں فیکٹریاں بنی ہوئی ہیں۔

’صورت حال یہ ہے کہ دیواروں کے اوپر بنے گھر دیواروں کو خستہ حال کر رہے ہیں۔ دیواروں کے ساتھ نکاسی کا نظام عمارت کو متاثر کر رہا ہے۔‘

ان کے مطابق محکمہ کوشش کر رہا ہے کہ تجاوزات کو ختم کرتے ہوئے جہاں جہاں عمارت خستہ حال ہے اسے ٹھیک کیا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ