میرے ایک کولیگ نے کسی دفتری معاملے پر مجھے وٹس ایپ پر انگریزی میں ایک طویل میسج بھیجا، جسے پڑھ کر میں حیران رہ گیا کہ نک سک سے درست انگریزی، لمبے لمبے الفاظ، چست فقرے۔ لیکن پھر غور کرنے پر پتہ چل گیا کہ انسانی ذہانت کی نہیں، مصنوعی ذہانت کی کارفرمائی ہے۔
یہ صرف میرا تجربہ نہیں، آج کی دنیا میں مصنوعی ذہانت سے بچنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ کسی طالب علم کا لکھا ہوا مضمون ہو، سوشل میڈیا پوسٹ ہو یا دفتری ای میل، ہر طرف چیٹ جی پی ٹی اور دوسرے چیٹ باٹس کی کارستانی دکھائی دیتی ہے۔
اس سے ایک بحران پیدا ہو گیا ہے کیوں کہ لوگوں نے اپنے ذہن کا استعمال کم کر دیا ہے، طلبہ اسائنمنٹس چیٹ جی پی ٹی سے بنواتے ہیں، دفتروں میں اکثر پلاننگ چیٹ جی پی ٹی کر رہا ہوتا ہے۔
اب سائنس دانوں نے اس مسئلے پر توجہ دینا شروع کی ہے اور کہتے ہیں کہ چند ایسی نشانیاں ہیں جن کی مدد سے ہم انسانی تحریر اور مصنوعی تحریر میں فرق کر سکتے ہیں۔
ایک آسان طریقہ تو وہی ہے جو میں نے اوپر بیان کیا، کہ اگر آپ لکھنے والے کو جانتے ہیں اور اچانک اس کی جانب سے شیکسپیئرین تحریر آ جائے تو پکڑی جائے گی۔
ذرا غور کریں تو یہ بات بہت اہم لگے گی۔ زبان پر عبور انسان کی خصوصیت سمجھا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ زبان ہی انسان کو دوسرے حیوانات سے ممتاز کرتی ہے، مگر اب زبان میں ’خامی‘ کو انسان کی پہچان کا ٹیسٹ بن گئی ہے۔
ایک اور طریقہ یہ ہے کہ اگر تحریر میں ایم ڈیش (—) بہت زیادہ استعمال کیے گئے ہوں تو اس پر مصنوعی ذہانت کا شک کیا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈیش کے عمدگی سے استعمال کے لیے زبان پر عبور ہونا بہت ضروری ہے، جس کی عام لوگوں سے توقع نہیں کی جا سکتی۔
پھر ماہرین نے کچھ الفاظ شناخت کیے ہیں، مثلاً delves یا crucial کہ اگر وہ بار بار برتے گئے ہوں تو چیٹ جی پی ٹی کا شبہ ہو سکتا ہے۔
ایک آسٹریلوی ماہر، جان بروز، نے Burrows’ Delta نامی تکنیک ایجاد کی، جو عام الفاظ جیسے the, and, to کے استعمال سے مصنف کی شناخت کرتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کی بنیاد اس علم پر ہے جسے سٹائیلومیٹری کہا جاتا ہے۔ ہر انسان کی تحریر کا ایک خاص انداز ہوتا ہے، اور وہ چند مخصوص الفاظ، تراکیب اور محاورے استعمال کرتا ہے، اسی کو اس کا سٹائل یا اسلوب کہتے ہیں۔ اسی طرح سے اے آئی کا بھی ایک خاص اسلوب ہے، جسے بروز کے طریقے سے پکڑا جا سکتا ہے۔
لیکن اس طریقے میں خامی یہ ہے کہ اس کے لیے آپ کو لمبی چوڑی تحریر چاہیے ہو گی، چند جملوں یا چند پیراگرافوں پر یہ طریقہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں تک پہنچ کر میں نے بھی آسان راستہ اختیار کیا کہ کیوں نہ خود اے آئی ہی سے پوچھا جائے کہ اس کی تحریر اور انسانی تحریر کی شناخت کیسے کی جائے؟
اس نے زیادہ تر تو وہی باتیں بتائیں جو میں نے اوپر بیان کیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے:
’انسان اور AI کی تحریر میں فرق کرنا مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ اگر تحریر حد سے زیادہ منظم، غیر جذباتی، اور عملی لگے، یا اس میں زیادہ عمومی الفاظ اور فہرستیں ہوں تو شبہ ہو سکتا ہے۔
’لیکن مکمل یقین کے لیے تحقیقی طریقے یا AI ماڈل ہی استعمال کرنے پڑیں گے۔‘
آخری بات نہایت اہم ہے۔ گویا اے آئی بتا رہی ہے کہ انسان اور اے آئی کی تحریر میں فرق بھی اے آئی ہی بتائے گی۔
اسی سے انسان کے مستقبل کا اندازہ لگا لیں۔