بنگلہ دیش کی پولیس نے اتوار کو کہا ہے کہ معروف طلبہ رہنما شریف عثمان ہادی کے مبینہ قاتل انڈیا فرار ہو گئے تھے۔
پولیس کے اس بیان کے بعد دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات میں مزید تناؤ کا خدشہ ہے۔
طلبہ رہنما شریف عثمان ہادی انڈیا کے سخت ناقد تھے اور گذشتہ سال ہونے والی عوامی بغاوت میں سرگرم کردار ادا کر چکے تھے۔
انہیں رواں ماہ کے آغاز میں ڈھاکہ میں نقاب پوش حملہ آوروں نے گولی مار دی تھی۔ بعد ازاں وہ سنگاپور کے ایک ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے تھے۔
ان کی موت کے بعد ملک بھر میں پرتشدد احتجاج شروع ہو گئے، جن کے دوران مشتعل ہجوم نے کئی عمارتوں کو نذرِ آتش کیا، جن میں دو بڑے اخبارات بھی شامل تھے جنہیں انڈیا نواز سمجھا جاتا ہے، جبکہ ایک معروف ثقافتی ادارے کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔
ملک بھر میں تقریباً روزانہ احتجاج جاری رہنے کے باعث بنگلہ دیش کی عبوری حکومت پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ ہادی کے قاتلوں کو گرفتار کرے، جو آئندہ سال فروری میں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے والے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈھاکا میٹروپولیٹن پولیس کے سینیئر افسر ایس این نذرالاسلام نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ’یہ قتل منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا۔ اس کے پیچھے ملوث افراد کی شناخت کر لی گئی ہے۔‘
پولیس کے مطابق مشتبہ افراد فیصل کریم مسعود اور عالمگیر شیخ 12 دسمبر کو شریف عثمان ادی پر حملے کے فوراً بعد ہالوآگھاٹ بارڈر کے ذریعے بنگلہ دیش چھوڑ کر انڈیا میں داخل ہو گئے۔
ایس این نذرالاسلام نے بتایا کہ ’سرحد پر انہیں دو انڈین شہریوں نے وصول کیا، جو انہیں شمال مشرقی ریاست میگھالیہ لے گئے، جہاں بعد ازاں انہیں دو دیگر ساتھیوں کے حوالے کر دیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ بنگلہ دیشی تفتیشی ادارے اس معاملے پر اپنے انڈین ہم منصبوں سے رابطے میں ہیں، جنہوں نے دو مبینہ معاونین کو گرفتار کر لیا ہے۔
تاہم، میگھالیہ پولیس کے دو سینیئر افسران نے اے ایف پی کی جانب سے رابطہ کرنے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
اس سے قبل انڈین وزارت خارجہ نے ہادی کے قتل میں نئی دہلی کے ملوث ہونے سے متعلق ’جھوٹے بیانیے‘ کو مسترد کیا تھا۔
دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات اس وقت سے بگڑے جب معزول وزیرِ اعظم شیخ حسینہ جمہوریت نواز عوامی بغاوت کے بعد ملک چھوڑ کر انڈیا میں پناہ لینے پر مجبور ہوئیں۔
انڈیا کا کہنا ہے کہ وہ ڈھاکہ کی جانب سے شیخ حسینہ کی حوالگی کی درخواست پر ابھی غور کر رہا ہے، جنہیں بغاوت کے دوران مہلک کریک ڈاؤن کی منصوبہ بندی کے الزام میں غیر حاضری میں سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔