امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انڈیا پر 25 فیصد درآمدی ٹیرف عائد کیے جانے اور روس کے ساتھ تعلقات پر سخت تنقید کے جواب میں انڈین حکومت نے کہا ہے کہ وہ قومی مفاد کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرے گی۔
انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے مطابق صدر ٹرمپ کے فیصلے کے اثرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے انڈیا پر محصول عائد کرنے کا اعلان اپنی نئی ٹیرف پالیسی کے نفاذ کی حتمی تاریخ یکم اگست سے کچھ دیر پہلے کیا۔ انڈین حکومت کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ ’منصفانہ، متوازن اور باہمی مفادات پر مبنی دو طرفہ تجارتی معاہدے‘ کے لیے مذاکرات جاری رکھے گی۔
انڈیا ٹرمپ کے اعلان سے پہلے واشنگٹن کے ساتھ تجارتی معاہدے کے لیے کئی ماہ سے مذاکرات کر رہا تھا۔ مذاکرات آئندہ ماہ دوبارہ شروع ہونا تھے اور انڈین حکام کو امید تھی کہ ستمبر یا اکتوبر تک معاہدہ طے پا جائے گا۔
نئے ٹیرف کا اعلان کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ انڈیا کے قوانین اور ضابطے ’دنیا میں سب سے زیادہ سخت اور ناقابل برداشت ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ وہ انڈیا کی امریکہ کو برآمدات پر 25 فیصد ٹیرف عائد کر رہے ہیں اور ساتھ ہی روس سے توانائی اور عسکری ساز و سامان کی خریداری پر بھی انڈیا پر مزید جرمانہ عائد کیا جائے گا، جس کی تفصیلات واضح نہیں کی گئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ’اگرچہ انڈیا ہمارا دوست ہے لیکن کئی برسوں سے ہمارا تجارتی لین دین بہت کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انڈیا کے ٹیرف بہت زیادہ ہیں، جو دنیا میں سب سے بلند سطح پر ہیں اور ان کی غیر مالی تجارتی رکاوٹیں کسی بھی ملک کے مقابلے میں زیادہ سخت اور پریشان کن ہیں۔‘
انہوں نے مزید لکھا: ’وہ اپنے فوجی سازوسامان کا بڑا حصہ ہمیشہ روس سے خریدتے رہے ہیں اور توانائی کے شعبے میں بھی چین کے ساتھ ساتھ روس کے سب سے بڑا خریدار ہیں، ایسے وقت میں جب پوری دنیا چاہتی ہے کہ روس یوکرین میں قتل وغارت بند کرے، سب اچھا نہیں۔‘
امریکہ کو انڈیا کے ساتھ تجارت میں 45 ارب 70 کروڑ ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے۔
چند گھنٹے بعد صدر ٹرمپ نے ایک اور پوسٹ میں روس کے ساتھ تعلقات پر انڈیا کو دوبارہ تنقید کا نشانہ بنایا۔ جمعرات کو انہوں نے کہا: ’مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ انڈیا روس کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ میری طرف سے دونوں مل کر اپنی مردہ معیشتوں کو نیچے لے جائیں۔ ہمارا انڈیا کے ساتھ تجارتی حجم بہت کم ہے کیوں کہ ان کے ٹیرف دنیا بھر میں سب سے بلند ہیں۔‘
صدر ٹرمپ کے جارحانہ انداز سے انڈیا کی وہ امیدیں دم توڑ گئیں، جن میں توقع کی جا رہی تھی کہ نریندر مودی کے ساتھ صدر ٹرمپ کی دوستی کی بدولت انڈیا کو دیگر ایشیائی ممالک کے مقابلے میں زیادہ بہتر تجارتی مراعات مل سکتی ہیں۔
25 فیصد کی شرح جنوبی کوریا، جاپان اور انڈونیشیا جیسے دیگر بڑے ایشیائی ممالک سے بھی زیادہ سخت ہے۔ جنوبی کوریا اور جاپان نے 15 فیصد جب کہ انڈونیشیا نے 19 فیصد ٹیرف پر اتفاق کیا۔
انڈین حکومت نے اپنے بیان میں کہا کہ ’حکومت نے امریکی صدر کے اس اعلان پر توجہ دی اور اس کے اثرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔‘
اس سے پہلے صدر ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدے کا اعلان کیا۔ پاکستان نے کہا کہ اس معاہدے سے اس کی برآمدات پر ٹیرف کم ہو جائیں گے، لیکن دونوں فریقوں نے ابھی تک طے شدہ ٹیرف ریٹ ظاہر نہیں کیا۔
ٹرمپ کے حالیہ بیان سے امریکہ اور انڈیا کے تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہونے کا امکان ہے۔ نئی دہلی پہلے ہی اسلام آباد کے ساتھ امریکی صدر کی قربت سے ناخوش ہے۔
جمعرات کو پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے انڈیا کے وزیر تجارت پیوش گوئل نے کہا کہ انڈیا اب ’نازک معیشت‘ نہیں رہا اور وہ دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے کی جانب بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا: ’مارچ 2025 میں امریکہ کے ساتھ منصفانہ، متوازن اور باہمی مفاد پر مبنی دو طرفہ تجارتی معاہدے کے لیے مذاکرات شروع کیے گئے، جس کا پہلا مسودہ 2025 کے موسم خزاں تک مکمل ہونا تھا۔ حکومت حالیہ واقعات کے اثرات کا جائزہ لے رہی ہے۔ وزارت تجارت صنعت کاروں، برآمد کنندگان اور دیگر متعلقہ فریقوں کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ ان کی رائے حاصل کی جائے۔‘
پیوش گوئل نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حکومت ملک کے کسانوں اور مزدوروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔
اب تک ہونے والے مذاکرات کے پانچ ادوار میں زراعت اور ڈیری کا شعبہ سب سے بڑا اختلافی نکتہ رہا۔ امریکہ گندم، مکئی، کپاس اور جینیاتی طور پر تبدیل شدہ زرعی اجناس کے لیے انڈین مارکیٹ میں زیادہ رسائی چاہتا ہے۔
لیکن انڈیا کی جانب سے واضح طور پر کہا گیا کہ زراعت اور ڈیری کے شعبے پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں، کیوں کہ یہ شعبہ ملک میں آٹھ کروڑ سے زائد افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے اور اگر ان کے مفادات کو نقصان پہنچا تو وہ احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔
پیوش گوئل نے گذشتہ ہفتے سی این بی سی سے گفتگو میں بھی واضح کیا کہ زراعت انڈیا کے لیے ایک حساس شعبہ ہے اور مودی حکومت یقینی بنائے گی کہ کسانوں کے مفادات کو ’اچھی طرح تحفظ ملے۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ انڈیا جلد ہی امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدہ طے ہونے کے بارے میں پرامید ہے۔
امریکہ حالیہ عرصے تک انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے اور 2024 میں دو طرفہ تجارت کا حجم 190 ارب ڈالر تھا۔ صدر ٹرمپ اور نریندر مودی نے اسے بڑھا کر 500 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا تھا۔
© The Independent