ٹرمپ اعلان: کیا پاکستان کے پاس اتنا تیل ہے کہ وہ انڈیا کو بیچ سکے؟

ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میں ممکنہ طور پر نو ارب بیرل تیل کے ذخائر موجود ہیں، مگر کیا انہیں تلاش کرنا آسان ہو گا؟

پاکستان میں تیل کے ممکنہ ذخائر انڈس بیسن میں موجود ہیں (او جی ڈی سی ایل)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا ٹروتھ سوشل پر بدھ کو اعلان کیا کہ ’پاکستان اور امریکہ تیل کے بڑے ذخائر بڑھانے کے لیے مل کر کام کریں گے۔‘

اس کے بعد انہوں نے بظاہر شگفتہ انداز میں لکھا کہ کیا پتہ پاکستان ’آنے والے دنوں میں انڈیا ہی کو تیل فروخت کر رہا ہو۔‘

اس موقعے پر لوگ سوال کر رہے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت تیل کے کتنے ثابت شدہ اور ممکنہ ذخائر موجود ہیں۔

امریکی توانائی کے ادارے کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق اس وقت پاکستان کے تیل کے کُل ثابت شدہ ذخائر کا تخمینہ 33.2 کروڑ بیرل ہے۔ اس طرح پاکستان دنیا میں تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی فہرست میں 52 ویں نمبر پر ہے۔

اس کے مقابلے میں پاکستان سالانہ 20 کروڑ بیرل تیل استعمال کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان صرف 19 مہینوں میں اپنا تمام تر موجود تیل استعمال کر لے گا۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو اپنے استعمال کے لیے 85 فیصد تیل باہر سے منگوانا پڑتا ہے۔

یہ ثابت شدہ ذخائر کی بات ہوئی۔ اب آ جائیے ممکنہ ذخائر پر۔ امریکہ کے توانائی کے ادارے ای آئی اے نے تخمینہ لگایا ہے کہ پاکستان میں ممکنہ طور پر نو ارب بیرل سے زیادہ پیٹرولیم موجود ہے۔ اگر یہ بات درست نکلی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان نہ صرف ایک طویل عرصے تک اپنے تیل کے وسائل پر تکیہ کر سکتا ہے بلکہ بیرونِ ملک بھیج کر بھاری زرِ مبادلہ بھی کما سکتا ہے۔

پاکستان میں سندھ میں سنجھورو، جوجوال، خیبر پختونخوا میں لکی مروت، جب کہ پنجاب میں اٹک اور رحیم یار خان کے علاقوں میں تیل کے ذخائر موجود ہیں۔

لیکن ان زمینی ذخائر کے علاوہ پیٹرولیم کے سب سے زیادہ ممکنہ ذخائر اس سمندری علاقے میں پائے جاتے ہیں جہاں دریائے سندھ بحیرۂ عرب میں گرتا ہے۔ اس علاقے کی ارضیاتی ساخت منفرد ہے اور یہاں ہندوستانی اور یوریشیائی پلیٹیں آپس میں ملتی ہیں۔ ایسے علاقوں میں عام طور پر تیل پایا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2019 میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اسی علاقے میں ایک بین الاقومی کنسورشیم کے ذریعے ڈرل کیے جانے والے کیکڑا 1 نامی زیرِ سمندر کنویں کے بارے میں اعلان کیا تھا کہ اس میں سے اتنا تیل نکلے گا کہ پاکستان کی قسمت بدل جائے گی، مگر بعد میں پتہ چلا کہ اس کنویں میں تیل نہیں تھا۔

رواں سال اپریل میں اسلام آباد میں پاکستان منرلز فورم کے زیرِ اہتمام ایک کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں دوسرے ملکوں کے علاوہ امریکہ کے ساؤتھ اینڈ سینٹرل ایشیئن افیئر کے سینیئر عہدے دار ایرک مائرز نے بھی اس فورم میں شرکت کی تھی، جس سے امریکہ کی پاکستانی معدنیات میں دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔

اس فورم میں پاکستان اور ترکی نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت ترکی پاکستان میں تیل کی تلاش میں مدد دے گا۔

اسلام آباد میں منعقدہ معدنیات کی کانفرنس میں ہونے والے اس معاہدے کے تحت مکران اور سندھ طاس کے علاقے میں 40 بلاک مقرر کیے گئے ہیں، جن میں تیل کے ذخائر تلاش کیے جائیں گے۔

لیکن جیسا کہ کیکڑا 1 کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے، ممکنہ ذخائر ہونا ایک بات ہے اور وہاں سے کھدائی کر کے منافع بخش طریقے سے معدنیات برآمد ہونا الگ۔ صرف تیل کی برآمد ہونا کافی نہیں ہے بلکہ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ کنویں کی گہرائی کیا ہے، تیل کتنا خالص ہے، وہاں سے تیل نکال کر ریفائنری تک پہنچانا کتنا آسان ہے، وغیرہ۔  

یہی وہ فرق ہے جو پاکستان میں بڑی مقدار میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس سے بھی بڑی رکاوٹ پاکستان کے سکیورٹی حالات ہیں۔

لیکن صدر ٹرمپ نے اپنی پوسٹ میں خاص طور پر نام لیے بغیر ایک امریکی کمپنی کا ذکر کیا ہے، جو اس معاملے میں شراکت داری کرے گی۔ اس پتہ چلتا ہے کہ شاید پسِ پردہ کچھ معاملات آگے بڑھ رہے ہیں اور ممکن ہے کہ آئندہ چل کر واقعی پاکستان انڈیا کو تیل بیچنے لگے۔

لیکن اس کے لیے ٹرمپ کو پہلے پاکستان میں تیل تلاش کرنا پڑے گا، اس کے بعد پاکستان اور انڈیا کو ایک ہی میز پر بٹھانا پڑے گا، جو شاید تیل ڈھونڈنے سے بھی زیادہ مشکل ثابت ہو۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان