روسی تیل کی برآمدات پر پابندی، کیا پاکستان متاثر ہو گا؟

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق اگر اس پابندی سے پیٹرول کی عالمی قیمتیں بڑھیں تو پاکستان کچھ نہیں کر سکے گا۔

 اسلام آباد میں ایک موٹر سائیکل سوار پیٹرول ڈلوا رہا ہے (انڈپینڈنٹ اردو)

اکرم (فرضی کردار) ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ ان کی تعلیم ایم اے اکنامکس ہے اور ماہانہ تنخواہ 30 ہزار روپے۔

چار بچوں، ایک بیوی اور بوڑھے ماں باپ کی ذمہ داری ان پر ہے۔ تنخواہ مہینے کے پہلے 15 دنوں میں ختم ہو جاتی ہے اور بقیہ دن ادھار لے کر گزارا کرنا پڑتا ہے۔

وہ سوچ رہے تھے کہ الیکشن کے بعد نئی حکومت آنے سے شاید ملک میں معاشی استحکام آئے اور مہنگائی میں کمی ہو گی لیکن ان کی امید زیادہ دیر تک قائم نہیں رہی۔

انہوں نے خبر پڑھی کہ ’روس نے یکم مارچ سے پیٹرول کی برآمدات پر چھ ماہ کی پابندی عائد کر دی۔‘

وہ سوچنے لگے کہ روس اگر پیٹرول برآمد نہیں کرے گا تو ڈیمانڈ سپلائی کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے جس سے پیٹرول کی قیمتیں بڑھیں گی اور مہنگائی میں کمی کی بجائے اضافہ ہو گا۔

انہوں نے ایک اور خبر پڑھی کہ ’نگران حکومت نے جاتے جاتے پیٹرول کی قیمتوں میں چار روپے 13 پیسے اضافہ کردیا۔

پیٹرول مہنگا کرنے کی وجہ عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافہ بتائی گئی۔ یہ خبر اکرم اور ان جیسے کروڑوں پاکستانیوں کے لیے پریشان کن ہے۔

وہ سوچ رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں اگر پیٹرول مزید مہنگا ہو گیا تو کس طرح گزارا ہو گا۔

اکرم کا کہنا ہے کہ ’میں اس وقت حکومت کی کارکردگی کو بہتر کہوں گا جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہو اور میری تنخواہ میں میرے گھر کا خرچ چل سکے۔‘

سابق صدر سیالکوٹ چمبر آف کامرس میاں نعیم جاوید نے بتایا کہ ’روس نے یکم مارچ سے پیٹرول کی برآمدات پر چھ ماہ کی پابندی عائد کردی۔

’بعض اطلاعات کے مطابق ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی ضرورت سے زیادہ مانگ کو پورا کرنے کے لیے یہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

’اس کے علاوہ روس میں 15 سے 17 مارچ کو صدارتی انتخابات ہیں۔ روس گندم کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے اور کسانوں کی بڑی تعداد کی آمدن اس سے جڑی ہے۔‘

نعیم جاوید نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’کسانوں کی نقل و حرکت کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ اسے الیکشن سٹنٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔

’اس کے علاوہ یوکرین کی جانب سے روسی آئل ریفائنریز تباہ کرنے کی خبریں ہیں لیکن میرے مطابق اس کی وجہ شاید کچھ اور ہے۔

’قزان میں تو بہت زیادہ آئل ریفائنریز ہیں۔ پابندی کی وجہ یورپ اور نیٹو کے لیے مسائل بڑھانا ہو سکتی ہے۔ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ عالمی قانون کے مطابق آپ بلاوجہ آئل سپلائی نہیں روک سکتے۔ شاید روس نے مضبوط بہانہ تراشہ ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ ملکی سطح پر پیٹرول کی قلت اور قیمتوں میں اضافے سے بچنے کے لیے گذشتہ سال ستمبر میں بھی روس نے پیٹرول کی برآمدات پر عارضی پابندی عائد کی تھی، جس نے عالمی منڈی کو متاثر کیا۔

’اس پابندی کے پاکستانی صنعت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ توانائی بحران کی وجہ سے ملک کی بیشتر انڈسٹری بند ہے۔

’اگر پیٹرولیم مصنوعات مزید مہنگی ہوئیں تو بجلی اور گیس بھی مزید مہنگے ہوں گے اور بقیہ صنعتوں کا چلنا مشکل ہو جائے گا۔‘

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بتایا کہ پیٹرولیم مصنوعات پاکستان کی سب سے بڑی امپورٹ ہے۔ ’روس کی پابندی سے عالمی مارکیٹ میں تیل مہنگا ہوگا تو ہم کچھ بھی نہیں کر سکیں گے۔

’پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تو بڑھیں گی لیکن دوسری طرف کرنٹ اکاؤنٹ کو جو دھچکہ لگے گا وہ بہت برا ہو سکتا ہے۔ پاکستان کوئی احتیاطی اقدام لینے کی پوزیشن میں نہیں۔ ہمارے پاس ان حالات کا سامنا کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہو گا۔‘

اس حوالے سے کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکریٹری ظفر پراچہ نے کہا روس کی طرف سے آئل ایکسپورٹ پر پابندی کے پیش نظر حکومت پاکستان کو بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

’پاکستانی سرکار اور بیوروکریسی کو پیٹرولیم ذخائر کے حوالے سے بروقت منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ کرونا کے دنوں میں عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات منفی ریٹ پر مل رہی تھیں، لیکن پاکستان نے بروقت معاہدے نہ کر کے اور تیل کے ذخائر نہ بڑھا کر غلطی کی۔‘

ان کا ماننا ہے کہ پاکستان کے پاس کم از کم چھ ماہ کے برابر تیل کے ذخائر ہونے چاہییں تاکہ عالمی منڈی میں اتار چڑھاؤ سے عوام پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’آئل مارکیٹنگ کمپنیز کو پابند کیا جائے۔ ان کی بجائے عوام کا فائدہ سوچا جائے۔‘

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر روس تیل کی برآمدات پر پابندی چھ ماہ تک قائم رکھتا ہے تو اس سے پاکستانی روپے پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔

’مہنگی تیل مصنوعات خریدنے سے ڈالر کا آؤٹ فلُو بڑھے گا۔ نیز دیگر اشیا مہنگی ہونے سے بھی امپورٹ بل میں اضافہ ہو جائے گا جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت بڑھ سکتی ہے۔‘

ذرائع کے مطابق پاکستان اپنی ضرورت کا تقریباً 20 فیصد تیل پیدا کرتا ہے اور تقریباً 80 فیصد سے زائد تیل درآمد کرتا ہے۔

اس 80 فیصد درآمدات میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، قطراور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ روس سے تیل درآمد نہیں کیا جاتا۔

حال ہی میں پاکستان نے روس سے سستا خام تیل درآمد کیا تھا، لیکن اس سے مطلوبہ فوائد حاصل نہیں ہو سکے۔

روسی پیٹرول کی برآمدات پر پابندی کا اطلاق یوریشن اکنامک یونین ( یو اے ای یو) میں شامل ریاستوں پر نہیں ہوگا جن میں آرمینیا، بیلاروس، قازقستان اور کرغیزستان کے علاوہ منگولیا، ازبکستان اور جارجیا سے ٹوٹنے والے علاقے ابخیزیا اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔

ان ممالک سے تیل باآسانی برآمد کیا جا سکتا ہے، جس سے امید ہے کہ عالمی قیمتوں پر شاید زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت