بھارت سستا روسی پیٹرول لے سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟

بین الاقوامی منڈی میں تیل کی بڑھتی قیمتوں کے پیش نظر روس کی آفر اکثر ملکوں کے لیے بہت پرکشش ہے، تاہم دنیا کے محض چند ملک ہی اس سے مستفید ہو پا رہے ہیں، اور پاکستان ان ممالک میں شامل نہیں ہے۔ 

28 اپریل 2022 کو ماسکو کے جنوب مشرقی مضافات میں روسی تیل ریفائنری (فائل تصویر: اے ایف پی)

روس یوکرین کے ساتھ جنگ کے نتیجے میں لگنے والی پابندیوں کے اثرات کم کرنے کی خاطر دنیا کو سستے خام تیل کی پیشکش کر رہا ہے، بھارت اس تیل کا ایک اہم خریدار ہے تاہم  پاکستان اس موقعے سے مستفید ہونے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتا۔ 

ماہرین کے خیال میں پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ترقی پذیر ممالک سیاسی اور تکنیکی وجوہات کی بنا پر روس سے ارزاں خام تیل خریدنے سے قاصر ہیں۔ 

سابق وفاقی سیکریٹری پیٹرولیم ڈاکٹر گل فراز کے خیال میں پاکستانی بین الاقوامی سیاسی وجوہات کی بنا پر روس سے سستا خام تیل نہیں لے پا رہا ہے 

تاہم ماہر پیٹرولیم الیاس فاضل کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اور ماسکو کے درمیان سستے خام تیل کی خریدو فروخت پر معاہدہ نہ ہونے کی وجوہات صرف تکنیکی ہی ہو سکتی ہیں۔ 

یاد رہے کہ روس نے اس سال 24 فروری کو اپنے پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا تھا جس کے بعد امریکہ اور یورپی یونین کے بیشتر ممالک نے ماسکو پر پابندیاں لگا دیں۔ 

پابندیوں کے نتیجے میں روس کی معیشت کو بڑا نقصان پہنچا، اور اسی پر قابو پانے کے لیے روسی صدر ولادیمیر پوتن نے دنیا کو بین الاقوامی منڈی کے نرخ سے نسبتا سستا خام تیل خریدنے کی پیشکش کی۔ 

بین الاقوامی منڈی میں تیل کی بڑھتی قیمتوں کے پیش نظر روس کی آفر اکثر ملکوں کے لیے بہت پرکشش ہے، تاہم دنیا کے محض چند ملک ہی اس سے مستفید ہو پا رہے ہیں، اور پاکستان ان ممالک میں شامل نہیں ہے۔ 

دنیا میں کرونا وبا کے باعث پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم رہنے کے بعد گزشتہ سال ان میں اضافہ دیکھنے میں آیا، جب اوسط فی بیرل قیمت 60 ڈالر پر پہنچی۔ 

تاہم سال 2021 کے وسط سے پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہونا شروع ہوا اور سو ڈالر فی بیرل سےبھی زیادہ اضافہ ہوا۔

25 اپریل کو اوپیک کے تیل کی قیمت 101.93 امریکی ڈالر فی بیرل رہی، جب کہ یورپی برینٹ اور امریکی ڈبلیو ٹی آئی تیل کی قیمتیں بالترتیب 102.32 اور 98.54 امریکی ڈالر فی بیرل تھیں۔

گیارہ اپریل کو فروری کے بعد پہلی مرتبہ برینٹ اور ڈبلیو ٹی آئی کی قیمتیں 100 ڈالر فی بیرل سے نیچے آئیں تھیں۔ 

روس یوکرین جنگ کے باعث تیل کی قیمتیں 2008 کے بعد سب سے اونچی سطح تک پہنچیں، جب کہ آنے والے ہفتوں میں تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ 

بھارت روسی تیل کا خریدار 

پاکستان کا پڑوسی ملک بھارت دنیا کے ان مٹھی بھر ممالک میں شامل ہے، جو روسی پیشکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سستا خام تیل خرید رہے ہیں۔ 

ہندوستانی اخبار منٹ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ بین الاقوامی پابندیوں سے متاثرہ روس بھارت کو اپنا یورال گریڈ خام تیل جنگ سے پہلے کی قیمتوں میں 35 ڈالر فی بیرل کی رعایت پر دے رہا ہے۔ 

اخبار کے مطابق روس کی بھارت کو سستا خام تیل دینے کی ایک وجہ اسے اس جنس کی مزید بڑی کھیپ اٹھانے پر آمادہ کرنا ہے۔ 

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ روس انڈیا کو سال رواں کے دوران ڈیڑھ کروڑ بیرل خام تیل فروخت کرنا چاہتا ہے، جس کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان گفت و شنید جاری ہے۔ 

برطانوی نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق بھارت نے 24 فروری کو یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے دو مہینوں کے دوران روس سے 2021 میں خام تیل کی مجموعی شاپنگ سے دو گنا زیادہ خام تیل خریدا ہے۔  

رپورٹ کے مطابق بھارت کی مختلف پیٹرولیم ریفائینریز نے 24 فروری کے بعد سے روسی خام تیل کے چار کروڑ بیرل سے زیادہ کے آرڈر دیے ہیں جو اس سال جون تک انہیں مہیا ہوں گے۔  

بھارت کے علاوہ چین، جاپان اور جنوبی کوریا بھی سستے تیل کی روسی آفر سے مستفید ہو رہے ہیں، جب کہ بعض بین الاقوامی اداروں نے کچھ یورپی ممالک کے متعلق بھی ماسکو سے سستا خام تیل خریدنے کا دعویٰ کیا ہے۔  

پاکستان کے لیے کیوں ممکن نہیں؟ 

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اپنی ضرورت کا 80 فیصد تیل درآمد کرتا ہے، جس میں سعودی عرب سے موخر ادائیگی پر حاصل ہونے والے پیٹرول کے علاوہ ایران، متحدہ عرب امارات، کویت اور سنگاپور وغیرہ سے حاصل کرتا ہے۔ 

بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث پاکستان کو بھی پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بےتحاشا اضافہ کرنا پڑا ہے، جو مستقبل میں جاری رہنے کا امکان ہے۔ 

اس پس منظر میں روس کی جانب سے سستے خام تیل کی فراہمی پاکستان کے لیے اپنے درآمدی اخراجات کو کم کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کا ایک نادر موقع قرار دیا جا سکتا ہے۔ 

تاہم پیٹرولیم اور پیٹرولیم مصنوعات کے امور کے ماہرین کے خیال میں پاکستان کے لیے سستے روسی خام تیل کے حصول میں اہم رکاوٹوں میں سیاسی اور تکنیکی وجوہات شامل ہیں۔ 

سابق وفاقی سیکریٹری پیٹرولیم ڈاکٹر گل فراز کے خیال میں یہ خالصتاً ایک سیاسی مسئلہ ہے، کیونکہ پاکستان کے لیے امریکہ اور یورپ کا ناراض کرنا ممکن نہیں۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ روس سے تجارت کے حجم کو زیادہ کرنے کی صورت میں پاکستان ماسکو سے گندم بھی خرید سکتا ہے، جو اسلام آباد کے لیے خام تیل سے زیادہ ضروری ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ماسکو کے بعد حکومت پاکستان کی طرف سے اس سلسلے میں پیش قدمی نہیں ہو سکی، جس کے باعث آج ملک سستے روسی خام تیل کی خریداری سے محروم ہے۔ 

’آج بھی اگر اس کی اہمیت حکومتی سطح پر سمجھ لیا جاتا ہے تو روس کے ساتھ مزید بات چیت کر کے معاملات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔‘

دوسری طرف پیٹرولیم امور کے ماہر الیاس فاضل کے مطابق روسی خام تیل کی خریداری سے پاکستان کا انکار یا ہچکچاہٹ کی وجہ تکنیکی پیچیدگیاں ہیں۔ 

الیاس فاضل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان میں موجود خام تیل صاف کرنے والے کارخانے ایک مخصوص سپیسیفیکیشنز کے مطابق بنے ہیں، اور ان میں مخصوص سپیسیفیکیشن کا تیل ہی پراسس ہو سکتا ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کے معروف ذرائع روسی خام تیل کی سپیسیفیکیشنز کو نقل نہیں کرتے جس کے باعث اس جنس کو پاکستانی میں موجود ریفائینریز میں پراسس کرنا رسک ہو سکتا ہے۔ 

الیاس فاضل کا کہنا تھا کہ پاکستانی ریفائینریز یورو فور سے یورو سکس قسم کے تیل کو پراسس کر سکتی ہیں۔ 

انہوں نے وضاحت کی کہ روسی خام تیل کو پاکستانی ریفائینریز میں پراسس کرنے لیے ان کارخانوں میں مشینوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں اور بعض جگہوں پر مشینیں بدلنے کی ضرورت پڑے گی۔ 

’ایسی صورت میں یہ ایک یہ صرف مہنگا اور لمبا کام ہو گا، بلکہ بڑی حد تک غیر محفوظ بھی ہو سکتا ہے۔‘

پیٹرولیم ماہر کا مزید کہنا تھا کہ اگر روسی خام تیل کی پاکستان میں پراسیسنگ ممکن ہوتی تو حکومت پاکستان ماسکو سے یہ سستی جنس خریدنے میں بالکل بھی تاخیر نہ کرتی۔ 

ان کا کہنا تھا: ’میرے خیال میں سستے روسی تیل کی خریداری سے انکار کی یہ سب سے منطقی وجہ ہو سکتی ہے۔‘

حکومت پاکستان کا موقف 

انڈپینڈنٹ اردو نے اس سلسلے میں حکومت پاکستان کا موقف جاننے کے لیے وفاقی پیٹرولیم ڈویژن کے ترجمان سے رابطہ کیا، تاہم انہوں نے اس بارے میں کمنٹ کرنے سے انکار کر دیا۔ 

تاہم پیٹرولیم ڈویژن کے ایک سینئیر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ پاکستان کے لیے روس کے ساتھ پینگیں بڑھانا موجودہ صورت حال میں خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ 

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا اس وقت امریکہ اور یورپین یونین روس کے خلاف ہے، اور پاکستانی معیشت کا دارومدار بڑی حد تک مغربی ممالک کے ساتھ تجارت پر ہے۔ 

’روس سے سستا تیل تو مل جائے گا لیکن اس کے نتیجے میں ہماری معیشت کو غیر معمولی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔‘

حکومتی اہلکار کے خیال میں بین الاقوامی سیاست میں کسی ملک کو بلاک بدلنے کی خاطر وقت اور طویل حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

’یہ چند ہفتوں یا ایک دورے کا کھیل نہیں ہے، جس طرح ہمارے ملک میں تاثر دیا جا رہا ہے وہ بالکل غلط اندازوں پر مبنی اور بغیر کسی پلاننگ کے کیا جا رہا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان