ایک نئی تحقیق کے مطابق انڈیا میں موت کا سبب بننے والے کوبرا اور سنگچور نسل کے سانپ (kraits) مرنے کے بعد بھی جسم میں زہر داخل کر سکتے ہیں۔
اب تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ مرنے کے بعد بھی ڈسنے کی صلاحیت سانپوں کی مخصوص اقسام تک محدود تھی، جن میں امیریکن ریٹل نیکس، کاپر ہیڈ، ایشیائی اور صحرائے صحارا کے لعاب پھیکنے والے کوبرا اور آسٹریلیا کا سرخ پیٹ والا سیاہ رنگ کا سانپ شامل ہیں۔
’فرنٹیئرز ان ٹراپیکل ڈیزیز‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق انڈیا کی ریاست آسام میں سائنس دانوں نے تحقیق میں تصدیق کی ہے کہ آنکھوں کے درمیان نشان رکھنے والا کوبرا اور سنگچور نسل کے سانپ اپنی موت کے کئی گھنٹے بعد بھی ڈس سکتے ہیں۔
محققین کی ٹیم کی قیادت آسام کے نمروپ کالج کی سشمیتا ٹھاکر نے کی۔ انہوں نے ایسے تین واقعات درج کیے جن میں سے دو کا تعلق سر پر نشان کے حامل کوبرا (ناجا کبوتیا) اور ایک سیاہ سنگچور (بنگارس لیوی ڈس) سے متعلق ہے۔ تمام واقعات آسام کے دیہی صحت مراکز میں رپورٹ کیے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پہلے واقعے میں ایک 45 سالہ شخص کو گھر میں مرغیوں پر حملہ کرنے والا ایک سانپ ملا، جسے انہوں نے سر کاٹ کر مار ڈالا۔
تاہم جب وہ مردہ سانپ کو پھینکنے کی کوشش کر رہے تھے تو سانپ کے کٹے ہوئے سر نے ان کے دائیں انگوٹھے پر کاٹ لیا۔
محققین نے لکھا کہ ’(سانپ کے) کاٹنے کے بعد زخم کی جگہ پر شدید درد ہوا جو کندھے تک پھیل گیا۔ انہوں نے قریبی کمیونٹی ہسپتال سے رجوع کیا۔
’ہسپتال جاتے ہوئے اس 45 سالہ شخص نے بار بار الٹی کی اور انہیں ’ناقابلِ برداشت درد‘ محسوس ہوا، جب کہ متاثرہ جگہ سیاہ پڑنے لگی۔‘
سانپ کی بروقت لی گئی تصویر نے ڈاکٹروں کو یہ شناخت کرنے میں مدد دی کہ مذکورہ شخص کو سر پر نشان والے کوبرا سانپ نے کاٹا۔ ہسپتال میں ڈاکٹروں نے درد کے علاج کے لیے پیراسیٹامول کے ساتھ زہر سے بچاؤ کا ٹیکہ لگایا۔
محققین نے کہا کہ ’اس علاج کے بعد درد نمایاں طور پر کم ہو گیا۔ مریض میں اعصابی نظام میں خرابی کی کوئی علامات پیدا نہیں ہوئیں۔ مریض کو 20 دن بعد فارغ کر دیا گیا اور زخم کی دیکھ بھال کے لیے باقاعدہ فالو اپ جاری رہا۔‘
دوسرے واقعے میں دھان کے کھیت میں کام کرنے والے ایک شخص نے انجانے میں اپنے ٹریکٹر کو کوبرا سانپ پر چڑھا دیا لیکن جب وہ کام کے بعد ٹریکٹر سے اترے تو اس سانپ، جسے مردہ سمجھا گیا، نے ان کے پاؤں پر کاٹ لیا۔
سائنس دانوں کے مطابق: ’مریض نے شدید درد، بڑھتی ہوئی سوجن اور کاٹے کے مقام پر رنگ کی نمایاں تبدیلی کی شکایت کی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ہسپتال میں انہیں دو بار قے آئی، جو زہر کے اثرات کی علامات ہیں۔
اگرچہ مریض کے اعصابی نظام کے زہر کے متاثر ہونے کی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئیں لیکن سانپ کے کاٹے کی وجہ سے پھوڑا بن گیا۔
انہوں نے لکھا کہ ’کچلے جانے اور کئی گھنٹے تک مردہ سمجھے جانے کے باوجود، سانپ کاٹ کر جسم میں زہر داخل کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا، جس کے لیے زہر کے علاج کے لیے ٹیکے اور زخموں کی طویل عرصے تک دیکھ بھال کی ضرورت تھی۔‘
تیسرے واقعے میں سیاہ رنگ کا سانپ گھر میں داخل ہوا جہاں اسے مار کر مکان کے عقبی حصے میں پھنک دیا گیا۔ بعد ازاں ایک پڑوسی جو سانپ کو دیکھنے آئے، انہوں نے سانپ کو سر سے پکڑ لیا جس نے انہیں دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی پر کاٹ لیا۔
چند ہی گھنٹے میں ہمسائے کو نگلنے میں مشکل پیش آئی اور ان کی آنکھیں بوجھل ہونے لگیں۔
ڈاکٹروں نے مریض کے ساتھ ہسپتال لائے گئے سانپ کو شناخت کر لیا۔ وہ سیاہ سنگچور (بنگارس لیوی ڈس) تھا۔ سائنس دانوں نے لکھا کہ ’متاثرہ شخص کو اس سانپ نے ڈسا جو تین گھنٹے قبل مر چکا تھا۔‘
زہر سے بچاؤ کے 20 ٹیکے لگانے کے بعد متاثرہ شخص بے حس وحرکت رہے اور ان کی حالت بگڑتی گئی۔ محققین کے مطابق: ’آہستہ آہستہ ان کے ہاتھوں پیروں کی حرکت ختم ہو گئی اور انہوں نے آواز پر جواب دینا بند کر دیا۔‘
سائنس دانوں نے لکھا کہ مریض کی حالت 43 گھنٹے تک سانس کی سہولت ملنے کے بعد بہتر ہوئی اور ہسپتال میں چھ دن گزارنے کے بعد انہیں ’صحت مند‘ حالت میں فارغ کر دیا گیا۔
ان واقعات کی بنیاد پر محققین نے خبردار کیا کہ جان لیوا چوٹیں لگنے کے بعد بھی کچھ سانپ ڈس سکتے ہیں جو سنگین پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے۔
انہوں نے مشاہدہ کیا کہ یہ صلاحیت سامنے کی طرف دانتوں والے سانپوں میں زہر کے نظام کی منفرد ساخت کی وجہ سے برقرار رہتی ہے۔
محققین نے لکھا کہ ’زہر کا گلینڈ بڑی تھیلی پر مشتمل ہوتا جس میں خارج شدہ زہر ذخیرہ ہوتا ہے اور یہ ایک لمبے کھوکھلے دانت سے جڑا ہوتا ہے۔‘
اگر مردہ سانپ کا کٹا ہوا سر سنبھالتے وقت اس کے زہر کا گلینڈ غلطی سے دب جائے تو زہر جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔
سائنس دانوں نے خبردار کیا کہ ’یہاں بیان کیے گئے واقعات میں جسم میں زہر داخل ہونے کے عمل نے وہی طبی علامات پیدا کیں جو زندہ سانپوں کے کاٹنے سے پیدا ہوتی ہیں۔‘
© The Independent