لاپتہ امریکی خاتون نے افریقی قبیلے کو خاندان بنا لیا

21 سالہ ٹیلر،نے فیس بک پر پیغام میں کہا کہ ’میں اپنے بادشاہ اور ملکہ کے ساتھ بہت خوش ہوں۔ میں کبھی لاپتہ نہیں ہوئی بلکہ ایک انتہائی ظالم اور زہریلے خاندان سے فرار ہوئی ہوں۔‘

21 سالہ ٹیلر، جو ایک سالہ بچے کی ماں ہیں جسے وہ اپنے ساتھ سکاٹ لینڈ لے گئیں، نے فیس بک پر پیغام میں کہا کہ وہ لاپتہ نہیں (وینڈورا سکنر)

امریکہ کی ریاست ٹیکساس کی لاپتہ خاتون، جو ایک ’افریقی‘ قبیلے کے خود ساختہ رہنماؤں کے ساتھ سکاٹ لینڈ کے جنگل میں رہتی ہوئی ملیں، کا اصرار ہے کہ وہ اپنی مرضی سے وہاں ہیں۔ تاہم ان کے خاندان کو ڈر ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے اس فرقے کا حصہ بن چکی ہیں۔

کیورا ٹیلر نامی خاتون حال ہی میں اس گروپ کے ساتھ جنگل میں رہتی ہوئی پائی گئیں۔ وہ تین ماہ قبل اپنے گھر سے غائب ہوئیں جس سے ان کے اہل خانہ سخت پریشانی کا شکار ہو گئے۔

ٹیلر کی خالہ ٹیری ایلن نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’یہ بہت دباؤ والا اور مشکل وقت ہے۔ ہمارے دل ٹوٹ گئے ہیں۔ ہم کیورا کے بارے میں حد سے زیادہ فکرمند ہیں لیکن انہیں لگتا ہے کہ کوئی ان کے بارے میں فکر مند نہیں۔‘

21 سالہ ٹیلر، جو ایک سالہ بچے کی ماں ہیں جسے وہ اپنے ساتھ سکاٹ لینڈ لے گئیں، نے فیس بک پر پیغام میں کہا کہ وہ لاپتہ نہیں۔ انہوں نے ان خبروں پر برہمی کا اظہار کیا جن میں کہا گیا کہ وہ ’غائب‘ ہو گئی ہیں۔

ٹیلر نے لکھا: ’میں اپنے بادشاہ اور ملکہ کے ساتھ بہت خوش ہوں۔ میں کبھی لاپتہ نہیں ہوئی۔ میں ایک انتہائی ظالم اور زہریلے خاندان سے فرار ہوئی۔‘

بعد ازاں انہوں نے ویڈیو پیغام میں برطانوی حکام سے کہا کہ انہیں جیڈ برگ کے جنگل میں تنہا چھوڑ دیا جائے، جو ایڈنبرا کے جنوب میں 40 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ’بالغ ہیں، کوئی بے بس بچی نہیں۔‘

تاہم ایلن نے جمعرات کو ان دعووں کو سختی سے رد کیا اور کہا کہ ان کی بھانجی کا بچپن ’بہت محفوظ اور تحفظ والے ماحول‘ میں گزرا۔

انہوں نے کہا کہ ٹیلر کی ’پرورش گرجا گھر میں ہوئی لیکن ان کے مذہب کے مطابق نہیں۔ یہ کام جو انہوں نے شروع کر رکھا ہے، سب بکواس ہے۔‘

ڈیلس کے قریب اپنے گھر سے دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے ایلن نے کہا کہ ٹیلر نے یہ بات بالکل چھپائے رکھی کہ وہ 2023 میں نام نہاد کنگڈم آف کبالا کے رہنما کنگ آتےہنے سے رابطے میں ہیں، جو دراصل گھانا سے تعلق رکھنے والے سابق اوپرا گلوکار اور تعلقات عامہ ایجنٹ ہیں اور جن کا اصل نام کوفی اوفے ہے۔ ان کی اہلیہ جین گاشو ہیں جو اب ’کوئین نادی‘ کہلاتی ہیں۔

کوئین نندی نے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا جبکہ کنگ آتےہنے کو بھیجی گئی ای میل واپس آ گئی۔

کنگ ڈم آف کبالا کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک گمشدہ عبرانی قبیلہ ہیں جو وہ زمین واپس لینا چاہتے ہے جسے ان کے بقول برطانیہ کی ملکہ الزبتھ اول نے 1590 کی دہائی میں سیاہ فام جیکوبائٹس کو نکال باہر کر کے چھین لیا۔

جیڈبرگ میں یہ تینوں افراد امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنی تعداد میں اضافہ کر سکیں گے اور دیگر نام نہاد کھوئے ہوئے قبائل کو ان کے مبینہ آبائی وطن واپس لا سکیں گے۔

ایلن نے کہا کہ ٹیلر، جو اب نام بدل کر ’ایسنات آف آتے ہنے، ’ملکہ نندی کی خادمہ‘ رکھ چکی ہیں غالباً اس گروہ سے سکول کی ہم جماعت کے ذریعے آن لائن متعارف ہوئیں۔

انہوں نے یاد دلایا کہ ٹیلر نے اچانک اپنے پیاروں سے تعلق توڑ لیا، خاندانی اجتماعات میں آنا چھوڑ دیا اور تہوار منانا بھی بالکل بند کر دیا۔ اس وقت ٹیلر اپنی خالہ وینڈورا سکنر کے ساتھ رہ رہی تھیں، جو ایلن کی بہن ہیں۔

ایک الگ انٹرویو میں سکنر نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’وہ مئی میں لاپتہ ہو گئیں۔ لیکن وہ بالکل لاپتہ نہیں تھیں، وہ ان لوگوں کے ساتھ رہنے کے لیے چلی گئیں۔‘

سکنر کے مطابق، ٹیلر جو اپنی کم عمری کے دنوں میں ان کے ساتھ رہتی تھیں، ایک ’انتہائی بےقابو‘ اور کبھی کبھار ’بہت گستاخ‘ بچی تھیں، لیکن گھر میں ہمیشہ انہیں بہت آزادی دی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سکنر کا کہنا تھا کہ ’وہ ایک چار بیڈ روم والے گھر میں رہتی تھیں۔ ان کا اپنا کمرہ تھا۔ شاید مجھے ان کے ساتھ اتنی نرمی نہیں برتنی چاہیے تھی۔ میں نے ان کے بوائے فرینڈز کو گھر آنے کی اجازت دی۔ شاید نہیں دینی چاہیے تھی۔ لیکن بہرحال میں نے انہیں ہائی سکول سے گریجویشن ضرور کروائی۔‘

سکنر کے مطابق، ٹیلر نے اپنے اس وقت کے بوائے فرینڈ کو بھی سکاٹ لینڈ کے جنگل میں ساتھ لے جانے کی کوشش کی، لیکن وہ کنگ آتےہنے اور ملکہ نندی کی ’غیر مذہبی رسومات‘ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اس لیے جانے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد 21 سالہ ٹیلر نے ان کے ساتھ تعلق ختم کر دیا اور مئی میں اپنی آٹھ ماہ کی بیٹی کے ساتھ سکاٹ لینڈ روانہ ہو گئیں، جس کے والد اب ان کی زندگی میں شامل نہیں تھے۔

سکنر کے مطابق تقریباً دو دن بعد ٹیلر نے انہیں ایک تحریری بھیجا کہ ’ہمیں نکلنا پڑا اور تھوڑا تلاش کرنا پڑا۔‘ لیکن جب سکنر نے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں تو کوئی جواب نہیں ملا۔

سکنر کے بقول: ’انہوں نے کہا کہ وہ مجھے اس وقت فون کریں گی جب وائی فائی سے کنیکٹ ہو جائے گی، لیکن پھر میں نے کبھی اس کی آواز نہیں سنی۔‘

البتہ سکنر کا ٹیلر کی سب سے قریبی سہیلی سے ضرور رابطہ ہوا، جو روز اس سے بات کرتی تھیں۔ سکنر نے کہا کہ جب وہ سہیلی ٹیلر کے بارے میں پوچھنے لگیں تو انہیں اندازہ ہو گیا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔

سہیلی نے سکنر کو بتایا کہ ٹیلر نے ذکر کیا تھا کہ وہ ’ان لوگوں‘ کے ساتھ رہنے جا رہی ہیں لیکن اسے مزید کچھ معلوم نہیں۔

سکنر کے مطابق: ’میں نے کہا، کون لوگ؟ اور انہوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتیں تو میں نے لوگوں کو فون کرنا شروع کر دیا۔

’میں نے ان کے سابق بوائے فرینڈ کو کال کی اور تب انہوں نے مجھے (کنگ ڈم) کے فیس بک پیج کے بارے میں بتایا اور کہا کہ وہ برطانیہ جا رہی ہیں۔ میں نے فیس بک پیج دیکھا اور واقعی وہ وہیں موجود تھیں۔‘

سکنر نے فوراً ایلن کو بتایا، جنہوں نے یہ خبر اپنی دوسری بہن، یعنی ٹیلر کی ماں تک پہنچائی۔

سکنر کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے سوچا یہ جھوٹ ہے لیکن یہ سچ نکلا۔‘

پھر سکنر نے مزید معلومات کے لیے فیس بک پر تلاش شروع کی اور دیکھا کہ آتے ہنے اور نندی نے پہلے بھی ایک اور امریکی لڑکی کے ساتھ تقریباً ویسا ہی رہائشی بندوبست کیا۔

سکنر نے کہا کہ جس بات انہیں واقعی صدمے کا شکار بنا دیا، وہ یہ تھی کہ ایک ویڈیو میں ٹیلر کو دیکھا جس میں وہ کہہ رہی تھیں کہ اگرچہ وہ قانونی طور پر کنگ آتےہنے کی بیوی نہیں لیکن وہ خود کو ان کی دوسری بیوی سمجھتی ہیں۔

سکنر نے حیرت سے کہا کہ ’اب وہ یہ بات کر رہی ہیں کہ وہ اس شخص کی بیوی ہیں اور وہ جتنی چاہے شادیاں کر سکتا ہے؟‘

بالآخر سکنر نے جیڈ برگ کے ایک رہائشی سے رابطہ کیا جو اس گروپ کے بارے میں ایک خبر کے نیچے موجود کمنٹس میں تھے۔ اس جوڑے نے جنگل کی زمین کے اپنے ٹکڑے سے نکالے جانے کے خلاف ناکام جدوجہد کی۔

جیڈ برگ کے رہائشی نے سکنر کو مشورہ دیا کہ وہ سکاٹش پولیس سے رابطہ کریں اور انہیں ایک نمبر دیا جس کے بعد سکنر نے ٹیلر اور ان کی بیٹی، جو جون میں ایک سال کی ہوئیں، کو لاپتہ رپورٹ کر دیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ٹیلر 25 مئی کو چھ ماہ کے سیاحتی ویزے پر برطانیہ گئیں جس کا مطلب ہے کہ وہاں ان کی مدت قیام نومبر میں ختم ہو جائے گی اور اس کے بعد ان کی خالاؤں کو امید ہے کہ وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوں گی اور واپس ٹیکساس آ جائیں گی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا