مہنگے پیٹرول سے کراچی میں ایمبولینس سروس بھی متاثر: فلاحی ادارے

ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کے بقول ایمبولینس کی سروس استعمال کرنے والے مریضوں کی تعداد میں ماضی کے مقابلے میں 30 سے 35 فیصد تک کمی آئی ہے۔

15 فروری 2016 کو لی گئی اس تصویر میں ایدھی فاؤنڈیشن کے مرحوم سربراہ عبدالستار ایدھی کراچی میں اپنے دفتر کی طرف ایمبولینس میں سفر کر رہے ہیں (آصف حسن / اے ایف پی) /

پاکستان میں حالیہ مہینوں کے دوران پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے نہ صرف معمول کی آمد و رفت کو متاثر کیا بلکہ اس اضافے سے وہ مریض بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں جنہیں علاج کے لیے تواتر سے ہسپتال جانے کے لیے ایمبولینس کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔

آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں تین ہزار ایمبولینس گاڑیاں ہیں اور فلاحی اداروں کا کہنا ہے کہ ان کے لیے اب مفت سروس یا ایمبولینس سہولت پر سبسڈی کی فراہمی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔

ملک کے اقتصادی مرکز کراچی کی ایک بڑی فلاحی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کا کہنا ہے کہ ان کے مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ کئی مریضوں نے تو علاج کرانا تک ترک دیا ہے کیوں کہ وہ ہسپتال تک پہنچنے کے لیے ایمبولینس کی سہولت استعمال کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

فیصل ایدھی نے بتایا کہ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ایمبولینس کے کرایوں میں معمولی اضافہ کیا گیا لیکن اس کے باوجود ان کے بقول ایمبولینس کی سروس استعمال کرنے والے مریضوں کی تعداد میں ماضی کے مقابلے میں 30 سے 35 فیصد تک کمی آئی ہے۔

پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے ایمبولینس سروس استعمال کرنے والوں پر اثرات کے بارے میں انڈپینڈنٹ اردو نے کراچی میں فلاحی اداروں اور مقامی انتظامیہ سمیت دیگر متعلقہ اداروں سے بات کر کے ایک تفصیلی جائزہ رپورٹ تیار کی ہے۔

کراچی میں علاج کے لیے مریضوں کتنا سفر کرنا پڑتا ہے؟

کراچی کے سات اضلاع میں سے ضلع جنوبی شہر کا مرکز سمجھا جاتا ہے، جو کہ لیاری ٹاؤن، صدر ٹاؤن اور جمشید ٹاؤن پر مشتمل ہے اور شہر کے انتہائی اہم، بڑے سرکاری اور نجی ہسپتال بھی اسی ضلعے میں ہیں۔

کراچی چونکہ وسیع علاقے میں پھیلا ہوا ہے اس لیے شہر کے مختلف علاقوں کے درمیان مریضوں کو طویل سفر طے کرنا ہوتا ہے، جس پر خاصی رقم بھی خرچ کرنا پڑتی ہے اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اب گھر سے ہسپتال تک کا سفر بھی بہت مہنگا ہو گیا ہے۔

مثال کے طور پر کیماڑی ٹاؤن میں واقع ماہی گیر بستی مبارک ولیج سے اگر کسی مریض کو کراچی کے جناح ہسپتال تک جانا ہو تو انہیں 50 کلومیٹر کا سفر کرنا ہو گا۔ اسی طرح ملیر ضلع کے نواحی گاؤں گوٹھ سُکھیو کے مریضوں کو جناح ہسپتال تک پہنچنے میں 104 کلومیٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے۔

ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کے مطابق پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ایمبولینسوں کے کرائے بڑھنے سے کراچی کے غریب علاقوں کے لوگوں نے علاج کروانا ترک کردیا ہے۔

فیصل ایدھی کے مطابق کراچی کے علاقوں لانڈھی، کورنگی، اورنگی، ملیر، بلدیہ ٹاؤن، اتحاد ٹاؤن کی مزدور آبادیوں میں ہسپتال نہیں ہیں اور وہاں کے لوگوں کو ضلع جنوب آنا پڑتا ہے۔ کچھ مریضوں کو ہفتے میں تین سے چار بار علاج کے لیے ہسپتال جانا پڑتا ہے اور ان کے مشاہدے میں آیا ہے کہ کرائے میں اضافے کے بعد کئی لوگوں نے علاج کروانا کم کر دیا ہے اور بعض نے تو علاج مکمل طور پر ترک کر دیا ہے۔

فیصل ایدھی کے مطابق: ’کراچی میں عام دنوں میں ہم 1500 افراد کو ایمبولینس کی سروس فراہم کرتے ہیں۔ ہم نے ریٹ بھی مخصوص رکھے ہوئے ہیں، مگر اس کے باجود کچھ عرصے سے ریٹ بڑھ جانے کے باعث ایمبولینس استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 30 سے 35 فیصد کمی ہوئی، کیوں کہ وہ افورڈ ہی نہیں کرسکتے۔‘

فیصل ایدھی کے مطابق سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) نے ان سے رابطہ کرکے کہا کہ ایمبولینسوں کے کرائے میں اضافے کے باعث بڑی تعداد میں مریضوں نے آنا ترک کر دیا ہے اور اگر انہوں نے ڈائیلسز کروانا بند کر دیا تو مریض مر سکتے ہیں۔

فیصل ایدھی کے بقول: ’میں نے ایس آئی یو ٹی کی انتظامیہ سے کہا کہ اگر ان کا کوئی مریض ایدھی کی ایمبولینس استعمال کرتا ہے مگر پیسے ادا نہیں کرسکتا تو ایدھی کو ادا کی گئی رقم کی پرچی لے کر آجائے ہم انہیں تمام پیسے واپس کردیں گے۔ اب ہر مہینے ڈھائی سو سے تین سو روز مریض ایس آئی یو ٹی سے ہمارے پاس پیسے واپس لینے آتے ہیں۔‘

گردوں کے امراض کے بڑے ادارے ایس آئی یو ٹی میں مریضوں کی تعداد کم ہوئی

سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) کے پیشنٹ ویلفیئر شعبے کی سربراہ فریدہ مظہر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کچھ مریض جو ڈائیلسز کے لیے ہفتے میں (ایس آئی یو ٹی) دو بار آتے تھے وہ اب ایک بار آرہے ہیں۔ ایسے مریضوں کی تعداد بتانا مشکل ہے مگر ایسے بہت سے مریض ہیں۔‘

فریدہ نے بتایا کہ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ’ہم ایدھی فاؤنڈیشن یا دیگر فلاحی اداروں کو درخواست کرتے ہیں کہ ان مریضوں کو گھر سے ہسپتال اور ہسپتال سے واپس گھر تک کے لیے ایمبولینس کے کرائے میں کمی کریں یا کرایہ معاف کر دیں، اس طرح ہم ان کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

گردوں کی صفائی یعنی ڈائیلاسز، جسمانی اعضا کی ورزش کے لیے فزیوتھراپی، تھیلیسیمیا سمیت کچھ بیماریوں کے مریضوں کو علاج کے لیے ہر ہفتے اوسطً ایک سے تین بار سفر کرنا پڑتا ہے۔

کراچی میں کتنی ایمبولینسیں ہیں؟

کراچی میں ایمبولینس سروس کے لیے بڑے فلاحی ادارے سجمھے جانے والے ایدھی فاؤنڈیشن اور چھیپا کے پاس شہر میں تقریباً 950 ایمبولینسیں ہیں۔

ایدھی فاؤنڈیشن کے اسسٹنٹ زونل انچارج احمد ایدھی کے مطابق ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس کراچی شہر کے لیے 400 سے زائد ایمبولینسیں، شہر سے باہر جانے کے لیے 20 بڑے سائز کی ایمبولینسیں، دو ایئر ایمبولینسیں جب کہ 12 ریسکیو بوٹ اور چھ میت گاڑیاں ہیں۔

اسی طرح چھیپا فاؤنڈیشن کے ترجمان چوہدری شاہد حسین کے مطابق ان کی تنظیم کے پاس کراچی شہر کے لیے 500 سے زائد ایمبولینسیں ہیں۔

جماعت اسلامی پاکستان کی جانب قائم کردہ غیر سرکاری تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ کے مطابق کراچی میں الخدمت فاؤنڈیشن کی 305 ایمبولینسیں کام کر رہی ہیں۔

سیاسی جماعت ایم کیو ایم کی جانب سے قائم ذیلی فلاحی ادارے خدمت خلق فاؤنڈیشن کے پاس بھی 100 ایمبولینسیں ہیں۔

اسی طرح محکمہ صحت سندھ کی ترجمان مہر خورشید کے مطابق کراچی میں صرف سرکاری ہسپتالوں میں سروس کے لیے محکمہ صحت سندھ کے پاس 200 ایمبولینسیں ہیں۔

اس کے علاوہ ’کراچی ایمبولینس سروس‘ کے نام سے ایک نجی کمپنی بھی کام کر رہی جو عام شہریوں کی ملکیت والی ایمبولینس گاڑیاں مختلف نجی اداروں، ہسپتالوں اور اداروں کو ماہانہ کرائے پر فراہم کرتی ہے۔ اس کمپنی کے مینیجر شاہد سندھو کے مطابق کراچی میں مختلف نجی کمپنیوں کے پاس ایسی 350 گاڑیاں ہیں۔

ہلال احمر کی ویب سائٹ کے مطابق ان کے پاس 14 جب کہ ریسکیو 1122 کے پاس 50 ایمبولینس گاڑیاں ہیں۔

کراچی میں ایمبولینس کا سفر کتنا مہنگا؟

کراچی میں اکثریت فلاحی اداروں کی ایمبولینس گاڑیوں کی ہے جو عام طور پر 30 روپے سے 45 روپے فی کلومیٹر کے حساب سے کرایہ لیتے ہیں۔

شہر کے ایک بڑے فلاحی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کی جانب سے پیٹرول کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کے بعد غریب مریضوں پر ایمبولینس کے کرائے کے بوجھ کو کم کرنے کا ایک فارمولا بھی بنایا گیا ہے۔

احمد ایدھی کے مطابق سفر کے حساب سے ایمبولینس کے کرائے طے کیے گئے ہیں اور ان کے بقول اس کا مقصد کسی حد تک مریضوں کو سہولت فراہم کرنا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں احمد ایدھی نے بتایا: ’ایدھی ایمبولینس کے کرائے کا ایک فارمولا ہے، جس کے تحت ایک سے آٹھ کلومیٹر تک 200 روپے، نو سے 18 کلومیٹر کے فاصلے کے لیے 500 روپے جبکہ 18 سے 30 کلومیٹر تک 1000 روپے لیے جاتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’گاڑی کی دیکھ بھال، پیٹرول، ڈرائیور کی تنخواہ اور دیگر اخراجات کی مد میں ایدھی فاؤنڈیشن کو ایمبولینس کے ایک کلومیٹر کا سفر 38 روپے میں پڑتا تھا، مگر غریب مریضوں سے پوری رقم لینے کے بجائے ایدھی فاؤنڈیشن ایمبولینس سروس پر سبسڈی دے کر مریضوں سے کم رقم لی جاتی ہے۔‘

لیکن احمد ایدھی کہتے ہیں کہ گذشتہ کچھ عرصے میں تیل کی قیمتوں میں کئی بار اضافے کے بعد اب ایک کلومیٹر کے سفر پر 45 روپے تک خرچ آتا ہے لیکن مریضوں سے زائد رقم نہیں لی جا رہی ہے۔

فیصل ایدھی کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے بعد ایدھی ایمبولینس سہولت پر سبسڈی کے مختص رقم کا حجم بھی بڑھ گیا ہے۔

چھیپا فاؤنڈیشن کے ترجمان چوہدری شاہد حسین کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے بعد ایمبولینس چلانے کا خرچ بھی بڑھ گیا ہے لیکن ان کے بقول سرکاری ہسپتال جانے والے افراد عموماً غریب ہوتے ہیں، اس لیے ان کے ادارے نے پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے باجود ایمبولینس کے کرائے میں اضافہ نہیں کیا ہے۔

’چھیپا فاؤنڈیشن ایمبولینس پر غریب صارفین کو سبسڈی دیتی ہے، مگر پیٹرول کی قیمت کے اضافے کے بعد سبسڈی کی مد میں فاؤنڈیشن کو ایمبولینس پر بھاری رقم خرچ کرنا پڑ رہی ہے۔‘

نجی ایمبولینس سروس کے مینیجر شاہد سندھو کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے بعد نجی کمپنیوں نے مجبوراً ایمبولینس کے کرائے میں 50 فیصد تک اضافہ کیا ہے۔

شاہد سندھو کے مطابق: ’پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے بعد کراچی میں چلنے والی 75 فیصد نجی کمپنیوں نے ایمبولینسوں کو پیٹرول سے سی این جی پر منتقل کر دیا ہے کیوں کہ کرائے میں اضافے کے بعد عام صارفین نے نجی ایمبولینس کا استعمال ترک کر دیا ہے۔ اس لیے نجی ایمبولینسیں سی این جی پر چلا کر کرائے کو مناسب رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

محکمہ صحت سندھ کی ترجمان مہر خورشید کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے بعد محکمہ صحت سندھ کو ایمبولینس سروس کی مد میں بجٹ میں اضافہ کرنا پڑا ہے۔

مہر خورشید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا: ’پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے بعد محکمے کے کانٹیجینسی (ہنگامی) بجٹ سے پیٹرول الاؤنس بڑھانا پڑا۔ ہماری 200 ایمبولینسوں کے لیے بجٹ میں 15 سے 20 فیصد اضافہ کرنا پڑا۔‘

ہلال احمر کی ویب سائٹ کے مطابق جیپ ایمبولینس کا کرایہ 22 روپے فی کلومیٹر، ٹیوٹا ہائی ایس اور دل کے امراض کے مریضوں کے لیے استعمال ہونے والی ایمبولینس کا ریٹ 30 روپے فی کلومیٹر ہے جبکہ اس کے علاوہ انتظار کی صورت میں ایک گھنٹے کا 100 روپے بطور ’ویٹنگ ٹائم‘ چارج کیے جاتے ہیں۔

اس حساب سے کوئی مریض جناح ہسپتال سے 50 کلومیٹر دور کیماڑی ٹاؤن کے مبارک ولیج سے ڈائیلاسز کے لیے اگر ہلال احمر کی ایمبولینس استعمال کرے تو انہیں آنے اور جانے کے لیے 3000 روپے اور ڈائیلاسز کے عمل کے لیے چار گھنٹے کے ویٹنگ ٹائم کے چار سو روپے ادا کرنے ہوں گے۔ اس طرح کل 3400 روپے ایک دن کے صرف کرائے کی مدد ادا کرنے ہوں گے۔

ڈائیلاسز، فزیوتھراپی، تھیلیسیمیا سمیت کچھ بیماریوں کے مریضوں کو علاج کے لیے ہر ہفتے اوسطً ایک سے تین بار سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس لحاظ سے ایدھی فاؤنڈیشن اور چھیپا کے مخصوص ریٹ والی ایمبولینس کے علاوہ دیگر دستیاب گاڑیوں پر ضلع ملیر کے نواحی گاؤں گوٹھ سُکھیو کے مریضوں کو جناح ہسپتال تک 104 کلومیٹر سفر کا سفر کرنا پڑتا ہے جس پر خرچ 3120 سے 4680 روپے تک آ سکتا ہے۔

اس علاقے سے اگر کوئی ڈائیلاسز، فزیوتھراپی، تھیلیسیمیا کا مریض ہفتے میں تین بار جناح ہسپتال آئے تو انہیں آنے اور واپس جانے کے لیے ہر ہفتے 18 سے 28 ہزار روپے صرف ایمبولینس کے کرائے کی مد میں ادا کرنے پڑتے ہیں اور ایک مہینے کا حساب لگایا جائے تو یہ خرچ 74 ہزار سے ایک لاکھ 12 ہزار روپے تک بنتا ہے۔

’مفت ایمبولینس نہ ملتی تو ڈائیلاسز روکنا پڑتا اور میں بھی اپنے دونوں بھائیوں کی طرح زندہ نہ رہتا‘

کراچی میں بلدیہ ٹاؤن کے رہائشی محمد عارف گردوں میں خرابی کے باعث گذشتہ 11 سال سے رتھ پاؤ سول ہسپتال میں ڈائیلاسز کرا رہے ہیں۔ ابتدا میں انہیں ہفتے میں ایک، کچھ عرصہ بعد ہفتے میں دو بار اور اب ہفتے میں تین بار ڈائیلاسز کے لیے ہسپتال آنا پڑتا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں محمد عارف نے بتایا: ’بلدیہ ٹاؤن سے سول ہسپتال تک 25 کلومیٹر کا سفر ہے۔ 2012 میں ہسپتال آنے اور واپس جانے کے لیے ایمبولینس کا خرچہ چار سو روپے تھا۔ کچھ عرصے بعد 1000 اور حال میں پیٹرول کی قیمت بڑھنے کے بعد اب دو ہزار روپے کا خرچہ آتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’دو ہزار روپے بھی اس صورت میں کہ اگر میں ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس استعمال کروں۔ نجی ایمبولینس کا خرچہ تین سے پانچ ہزار روپے ہے۔‘

محمد عارف کے مطابق وہ ملازمت کرتے تھے مگر بیماری کے باعث میڈیکل بورڈ کی سفارش پر انہیں نوکری سے نکال دیا گیا۔ ان کے والد پاکستان نیوی سے ریٹائرڈ ہیں اور والد کی پینشن کی رقم سے ہی وہ اپنا علاج کرواتے ہیں۔

محمد عارف کے بقول: ’صرف ڈائیلاسز کے لیے مہینے میں 12 بار ہسپتال نہیں جانا پڑتا، کبھی ڈاکٹر سے چیک اپ کروانے اور طبعیت خراب ہونے کی صورت میں بھی سفر کرنا پڑتا ہے۔ کسی مہینے تو مجھے 15 سے 18 بار ہسپتال آنا پڑتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ صرف والد کی پینش سے علاج اور گھر چلانا ممکن نہیں تھا۔ ’ڈائیلاسز کے بعد حالت غیر ہو جاتی ہے اور بس یا رکشہ میں سفر ممکن نہیں۔ اس لیے ایدھی فاؤنڈیشن کو مفت ایمبولینس فراہم کرنے کی درخواست دی۔ اب ایدھی فاؤنڈیشن مفت ایمبولینس فراہم کرتی ہے، اس لیے ہی علاج ہو رہا ہے۔‘

بقول عارف: ’میرے بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی بھی گردوں میں خرابی کے مریض تھے اور ان کا بھی ڈائیلاسز ہوتا تھا، مگر علاج کے لیے مناسب رقم نہ ہونے کے باعث دونوں بھائی انتقال کر گئے۔ اگر ایدھی فاؤنڈیشن مفت ایمبولینس فراہم نہ کرتی تو میں بھی دونوں بھائیوں کے طرح شاید زندہ نہ رہتا۔‘

حکومت کیا کہتی ہے؟

حکومت کا موقف لینے کے لیے جب وزیراعلیٰ ہاؤس سے رابطہ کیا گیا تو نگران وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت سندھ کو تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد مریضوں کو درپیش مشکلات کا اندازہ ہے۔ سندھ حکومت نے خطیر رقم سے ریسکیو 1122 کا قیام کیا، جس میں جدید ایمبولینسیں ہیں اور یہ سروس مکمل طور پر مفت ہے اور اچھا کام کر رہی ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کیا سندھ حکومت کراچی میں کام کرنے والی فلاحی ایمبولینس سروس کو تیل کی مد میں کوئی سبسڈی دی گی تو عبدالرشید چنا نے کہا ’سندھ حکومت سبسڈی دینے کا بھی سوچ سکتی ہے، مگر چونکہ اس کے لیے مستقل بڑی رقم درکار ہے اور اس وقت نگران حکومت ہے، لہذا نئی حکومت کے آنے پر ہی یہ اقدام کیا جاسکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان