انڈیا میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نئی دہلی پر 25 فیصد محصول عائد کرنے کے اعلان کو نریندر مودی حکومت کی سفارتی ناکامی قرار دیا ہے۔
ٹرمپ کی جانب سے 25 فیصد محصول عائد کرنے کی خبر سامنے آنے کے بعد انڈین روپیہ کمزور ہوا اور سٹاک مارکیٹ نیچے گئی۔
25 فیصد ٹیرف انڈیا کے لیے دوسرے بڑے تجارتی شراکت داروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت ہو گا، جس سے مہینوں سے جاری مذاکرات کو ختم کرنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس سے واشنگٹن کے ایک ایسے سٹریٹجک اتحادی کو نقصان پہنچے گا، جسے خطے میں چین کے مقابلے میں توازن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ انڈیا سے درآمد کی جانے والی اشیا پر ٹیرف جمعے (یکم اگست) سے لاگو ہو گا۔
اس کے علاوہ روس سے لین دین اور برکس ممالک کے گروپ میں شمولیت پر بھی سزا دی جائے گی، تاہم سزا کا تعین نہیں کیا گیا۔ بعد ازاں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ تجارتی مذاکرات جاری ہیں۔
جواب میں انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے کہا کہ وہ ٹرمپ کے بیانات کے نتائج کا جائزہ لے رہی ہے اور منصفانہ تجارتی معاہدہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
کانگریس کے ایک رکن اسمبلی نے اس معاملے پر ایوانِ زیریں میں بحث کے لیے دیے گئے نوٹس میں کہا کہ ’یہ پیش رفت مودی حکومت میں خارجہ پالیسی کی مجموعی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔‘
نوٹس میں کہا گیا کہ بحث کا محور ’حکومت کی معاشی اور سفارتی ناکامی ہو گی کہ وہ انڈین برآمدات پر 25 فیصد امریکی ٹیرف اور اضافی جرمانے عائد ہونے سے روکنے میں ناکام رہی۔‘
نیوز چینلز کے مطابق بعد ازاں جمعرات کو وزیرِ تجارت پیوش گوئل ایوان زیریں کو اس معاملے پر آگاہ کریں گے۔
ماہرین معیشت نے خبردار کیا کہ اتنا زیادہ ٹیرف انڈیا کی صنعتی ترقی کے خواب کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور مارچ 2026 تک جاری مالی سال میں معاشی ترقی کی رفتار میں چالیس بیسز پوائنٹس تک کمی کر سکتا ہے۔
انڈیا کے اہم شیئر انڈیکس، نفٹی 50 اور بی ایس ای سین سیکس، دونوں تقریباً 0.6 فیصد گر گئے، جب کہ روپے کی قدر کم ہو کر 87.74 ہو گئی، جو پانچ ماہ سے زائد عرصے کی کم ترین سطح ہے، تاہم بعد میں اس میں کچھ بہتری آئی۔ ایشیا ڈی کوڈ کی ماہرِ معیشت پریانکا کشور نے کہا کہ انڈیا کو ’بری ڈیل‘ ملی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگرچہ مزید تجارتی مذاکرات ٹیرف کی شرح کو کم کر سکتے ہیں لیکن یہ امکان کم ہے کہ انڈیا اپنے مشرقی ہمسایوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر بہتر نتائج حاصل کر سکے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس سے انڈیا کی چین پلس ون ملک کے طور پر کشش پر سوالات اٹھیں گے۔
چین پلس ون سے مراد جغرافیائی سیاسی اور آپریشنل خطرات کو کم کرنے کے لیے چین سے باہر مصنوعات تیار کر کے سپلائی چینز کو متنوع بنانے کی حکمت عملی ہے۔
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر کہا کہ تجارتی مذاکرات جاری ہیں، تاہم انہوں نے مختلف ممالک کو جمعے تک دو طرفہ ٹیرف پر معاہدے کرنے یا اپنی برآمدات پر امریکی ٹیرف کا سامنا کرنے کی ڈیڈ لائن ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈیا پر امریکی ٹیرف کچھ ان دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے جو ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ معاہدوں میں کامیاب ہوئے۔ مثال کے طور پر ویت نام پر 20 فیصد، انڈونیشیا پر 19 فیصد اور جاپان اور یورپی یونین کی برآمدات پر 15 فیصد ٹیرف ہے۔
بدھ کو ٹرمپ نے کہا کہ واشنگٹن نے انڈیا کے روایتی حریف پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدہ کر لیا ہے، جس کے بارے میں اسلام آباد کا کہنا ہے کہ اس سے اس کی برآمدات پر ٹیرف کم ہو جائے گا تاہم دونوں جانب سے طے شدہ ریٹ اب تک ظاہر نہیں کیا گیا۔
مئی میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والی مختصر مگر خونریز جنگ کے بعد سے، نئی دہلی ٹرمپ کی اسلام آباد سے قربت پر ناخوش ہے اور اس پر احتجاج بھی کیا ہے، جس کا اثر تجارتی مذاکرات پر بھی پڑا۔
اگرچہ پہلے ٹرمپ اور مودی کے درمیان خوشگوار تعلقات کا مظاہرہ ہوتا رہا ہے، لیکن گذشتہ چند ہفتے میں انڈیا نے امریکہ کے خلاف قدرے سخت موقف اختیار کیا۔
ٹرمپ بار بار کریڈٹ لے چکے ہیں کہ 10 مئی کو انہوں نے سوشل میڈیا پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان جس جنگ بندی کا اعلان کیا، وہ ان کی مداخلت اور تجارتی دھمکیوں کے نتیجے میں ہوئی۔ انڈیا ان کے اس کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتا۔
کانگریس نے کہا کہ ’اب ملک کو نریندر مودی کی دوستی کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔‘
امریکہ جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، اس وقت اس کا انڈیا کے ساتھ 45 ارب 70 کروڑ ڈالر کا تجارتی خسارہ ہے۔ انڈیا دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔
2025 کے پہلے چھ ماہ میں روس انڈیا کو تیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک رہا جو مجموعی سپلائی کا 35 فیصد بنتا ہے۔
جمعرات کو ٹروتھ سوشل پوسٹ میں ٹرمپ نے کہا کہ ’مجھے اس بات کی پروا نہیں کہ انڈیا روس کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ وہ اپنی مردہ معیشتوں کو ایک ساتھ لے ڈوبیں مجھے اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘