’سر راہ،‘ ٹیکسی ڈرائیور لڑکی کی کہانی

اس ڈرامے میں رانیہ ایک پروفیشنل ٹیکسی ڈرائیور دکھائی گئی ہے، جو سماج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اپنا گھر بھی چلا کر بتا رہی ہے کہ عورت کا معاشی مستحکم ہونا کتنا ضروری ہو گیا ہے۔

ڈرامے میں ہر ہفتے ایک نیا ٹیبو توڑا گیا ہے (اے آر وائی ڈیجیٹل)

ڈراما ’سر راہ‘ نے ہماری معاشرتی روایات پر بہت مثبت ضربیں لگائی ہیں۔ وہ باتیں، وہ روایتیں جو منفی معنی میں اپنی محدود وسسعت و معاشرت کی وجہ سے موجود تھیں اس کو جدید دور کا ایک باوقار سچ عطا کیا۔

ایک ایسی مڈل لڑکی کی کہانی جس کو پڑھایا نہیں گیا کہ وہ لڑکی ہے اور لوگ کیا کہیں گے۔ بوسیدہ سی سوچ کے مطابق اس کی منگنی اس کے پھوپھی زاد سے کر دی گئی جو روایتی مرد تھا اور وقت و حالات نے ساتھ بھی دیا تو پڑھ لکھ کر نوکری پہ لگ گیا۔

اب مڈل کلاس کی پھوپھی جان کو کیسے اپنی ہی بھتیجی رانیہ اپنے بیٹے کے معیارکے مطابق لگتی، لہٰذا وہ شادی کے لیے تاخیر کرتی چلی گئی کہ جس دوران رانیہ کی شادی کی عمر گزر گئی۔ والدین کو نہیں لیکن رانیہ کو یہ بات سمجھ آ رہی تھی کہ ا س کی پھوپھی اب اس غریب لڑکی کو بہو نہیں بنانا چاہتی تھیں۔

رانیہ میٹرک بھی نہ کر سکی چونکہ پڑھنا لکھنا تو آ گیا تھا، اس نے اپنا سارا وقت کتابوں کے ساتھ دوستی میں گزار دیا۔ یوں زندگی کے بہت سے فلسفے اس پہ کھل تو چکے تھے۔

 جب عمل کرنے کی باری آئی تو وہ ایک بہادر شیرنی کی طرح کچھار سے نکلی اور کسی کی پروا کیے بنا اپنے والدین کا سہارا بن گئی جب اس کا پڑھا لکھا بھائی نوکری کرنے کو تیار نہیں تھا اور باپ کے دل کے آپریشن کے باعث اب وہ ٹیکسی چلا نہیں سکتا تھا۔ وہ بھائی جو اس گھر کا ذریعۂ معاش تھا۔

پھوپھی زاد کزن کی شادی کے موقعے پہ جب اس کے والد کو ہارٹ اٹیک ہوا تو رانیہ اپنے باپ کی ٹیکسی میں ہی انہیں ہسپتال لے کر گئی۔

اس وقت رانیہ کے منگیتر کی مردانہ حس جاگ گئی، ’تم نے گاڑی چلانا کب سیکھی؟‘ اسے اپنے ماموں کی صحت سے زیادہ فکر گویا رانیہ کی ڈرائیونگ کی مہارت پہ تھی۔

 رانیہ نے والد کے دل کی سرجری کے دوران اپنے منگیتر سے 40 ہزار ادھار بھی لیا جو اس کے لیے بلیک میلنگ پوائنٹ بن گیا۔

رانیہ نے جب گھر کے ابتر حالات دیکھے اس نے ٹیکسی چلا کر ہی گھر چلانے کا فیصلہ کیا۔ شروع میں مشکلات پیش آئیں لیکن بعد میں زندگی رواں ہو گئی۔ اس کی پھوپھی کو تو منگنی توڑنے کا بہانہ چاہیے تھا۔ رانیہ نے بہادر لڑکی کی طرح خود رشتے سے انکار کر دیا کہ اسے اپنے والدین کی مجبوری اور بھائی کے تیور بھی نظر آ رہے تھے۔

کزن کے اندر کی مردانہ غیرت جاگ گئی کہ دنیا باتیں بنائے گی لیکن رانیہ نے سب کو باور کروایا کہ باتیں بنانے والے روٹی لا کر نہیں دیتے، دوا لا کر نہیں دیتے، صرف تماش بین ہوتے ہیں۔

رانیہ کے لیے صبا قمر کا انتخاب بہترین فیصلہ تھا کہ وہ کردار کے اندر ڈوب کر کام کرتی ہیں۔ کردار میں جان ڈال دیتی ہیں بلکہ روح پھونک دیتی ہیں۔

پہلی قسط میں رائنہ کی کہانی ہے۔ اس کے گھر، ایک مڈل کلاس کی لڑکی کی مجبوریوں کی کہانی ہے، جس کی زندگی محتاجوں کی طرح گھر کے مردوں پہ منحصر ہوتی ہے۔ وہ جو دے دیں شکر کر لیتی ہے، نہ دیں تو بھی مطمئن رہتی ہے مگر اپنا حق نہیں مانگتی۔

ایسی بیٹیاں وقت آنے پہ کبھی اپنے گھر والوں کو تنہا نہیں چھوڑتیں کیونکہ زندگی تو ان پہ اندر ہی اندر کھل چکی ہوتی ہے کہ اپنے لیے جینا کوئی بہادری یا زندگی نہیں ہے۔ زندگی دوسروں کے لیے جینا کمال ہے۔

اب رانیہ کے والدین کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے کہ انہوں نے اسے بھی بیٹے کی طرح پڑ ھایا ہوتا تو نہ یہ رشتہ ختم ہو تا نہ اس کو یہ ٹیکسی چلانی پڑتی، لیکن اب وقت بہت آگے نکل چکا تھا کچھ واپس نہیں آ سکتا تھا خود ان کی اپنی بیٹی بھی واپس نہیں آ سکتی ہے۔

دوسری قسط سے رانیہ ایک پروفیشنل ٹیکسی ڈرائیور دکھائی گئی ہے، جو سماج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اپنا گھر بھی چلا رہی ہے۔ بہت سی خواتین کے مسائل بھی حل کر رہی ہے۔ یہ بھی دکھایا جا رہا ہے کہ اگر اس پروفیشن میں بھی لڑکیاں ہوں تو بہت سے والدین کو اپنی بیٹیوں کے کالج سکول کی پک اینڈ ڈراپ سروس لیتے ہوئے خوف نہیں ہو گا۔

نوکری نہیں ہنر و محنت انسان کے لیے اہم ہے یہاں یہ اہم نکتہ بھی واضح ہوتا ہے کہ عورت کا معاشی مستحکم ہونا آج کے زمانے میں کتنا ضروری ہو گیا ہے۔

ڈرامے میں ویب سیریز کا لطف ہے۔ بطور ٹیکسی ڈرائیور رانیہ کے توسط سے خواتین کے حوالے سے بنے ٹیبوز کو توڑنے والے کردار شہرزاد کی طرح ہر ہفتے ایک نیا ٹیبو توڑتے ہیں۔ دوسری قسط میں ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو بانجھ نہیں ہے بلکہ اس کا شوہر اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے مگر وہ اس کی ساس نے ڈاکٹر بہو کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ آخر کار اس کا شوہر اسے میڈ یکل کی پریکٹس کی اجازت دے دیتا ہے، یوں اس کا اعتماد اپنی ذات پہ بحال ہوتا ہے اور وہ اپنی ممتا کی تسکین کے لیے ایک بچی کو گود لے لیتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تیسری قسط میں ایک ٹک ٹاکر لڑکی کہانی ہے، جس کی کوئی ویڈیو وائرل ہو جاتی ہے لیکن اس کا منگیتر اس پہ یقین کرتا ہے، دنیا اور گھر والوں کی باتوں میں نہیں آتا بلکہ اسے نکاح کر لیتا ہے۔ رانیہ کو اس پہ رشک آتا ہے وہ اسے بہن بنا کر اس کی خوشی کا صدقہ دیتی ہے۔

ایک پریشان لڑکا جو اس کی ٹیکسی میں آ کر بیٹھتا ہے کہ اسے ہسپتال لے جائے کہ اس کے والد کی زندگی خطرے میں ہے۔ یہ پہلا لڑکا ہے جس ٹیکسی میں اس کی ساتھ والی سیٹ پہ سفر کرتا ہے۔

یہی اس کی زندگی کے سفر کا ہیرو ہو گا۔

پیس کش بہت سادہ، بہت معیاری، بہت مثبت انداز میں کی گئی ہے۔ تھیم سانگ نے کہانیوں میں جان ڈال دی ہے۔ سفر انسان کو کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔ رانیہ کو بھی سفر سفر میں سرراہ ہی ہم سفر مل جائے گا۔

جو دوسروں کی خوشی میں خوش ہوتا ہے گویا وہ اپنی خوشی کے بیج بوتا ہے۔

 سر راہ ایک کہانی نہیں، رانیہ کی صورت ایک یاد رکھا جانے والا ایسا کردار ہو گا جو سماجی ٹیبو پہ ضرب کاری کے حوالے سے پہچان بنا لے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ