ڈراما ’نکاح‘ میں نکاح نامے کی اہمیت پر بات ہوئی ہے۔ حالیہ اعداد شمار کے مطابق پنجاب میں 60 فیصد نکاح نامے نامکمل جمع کروائے جاتے ہیں، گویا زندگی بھر کا معاہدہ ادھورا ہی دستخط ہوتا ہے۔
نکاح کرنے والوں کی باہمی رضا مندی سے نکاح نامہ مکمل پُر کرنا چاہیے تاکہ مستقبل میں کوئی اندیشہ لاحق ہو تو کیا گیا معاہدہ نکال کر اس پر دلیل سے بات کی جا سکے۔
نکاح کے معنی معاہدے کے ہیں، جس پر دو فریق کچھ شرائط پر ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ شادی کا لفظ کسی حد تک اس میں اضافی ہے، اس لیے نکاح کی بہت سی شرائط معاشرے کو اضافی اور بدشگن لگتی ہیں۔
اس ماحول میں ڈراما ’نکاح‘ ایک مثبت سوچ لے کر سکرین پر نمودار ہوا ہے۔ یہ دو ایسے دوستوں کی کہانی ہے جن کی بیویاں بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ دونوں نے دوسری شادی نہیں کی لیکن ان کے بچوں میں والد کی تنہائی کا شعور ہے۔
ایسا موضوع ہمارے ڈراموں میں آیا تو ہے لیکن مشرقی روایات کے میوہ جات سے مزین سوچ کے ساتھ ہی ہم نے اسے دیکھا ہے۔ ڈراما نکاح میں اسے نفسی پیمانے پر پیش کیا جا رہا ہے۔
سکرپٹ میں ایک انفرادیت یہ ہے کہ ڈرامے کو ڈراما بنا نے والا سسپنس فوری ٹوٹ جاتا ہے، اس کے باوجود نہ کہانی سے جان نکتی ہے، نہ تجسس کم ہوتا ہے۔
’خیر‘ اتنا وزنی ہے کہ فوراً ’شر‘ کے سامنے بے پردہ ہو جاتا ہے۔ ہیرو ولن کے شر سے بہت جلد نکل جاتے ہیں کہ ولن کو نئی چال چلنا پڑتی ہے۔
منفی تدبیر اور چال کی جڑیں پائیدار ہوتی بھی نہیں ہیں لیکن وقتی طور پر انسان مشکل میں پھنس جاتا ہے۔
ڈرامے کے دو کردار اعجاز اور فاروق ہیں۔
اعجار کی بیوی کا انتقال ہوا تو اس کی بہن عمائمہ نے اس لیے شادی سے انکار کر دیا کہ اب وہ اپنے بھائی کی بیٹی انوشے کی پرورش کرے گی، جو ابھی بہت چھوٹی ہے، گرچہ ایک طوفانی محبت کا غم بھی اس کے سینے میں چھپا ہوا ہے۔
انوشے بڑی ہو کر پھوپھو کی سہیلی بن گئی۔ یونیورسٹی تک پہنچ گئی اب اس کے رشتے آنے لگے، لیکن بھائی چاہتا تھا کہ بیٹی سے پہلے بہن کو رخصت کردے۔
فاروق، اعجاز کا یونیورسٹی فیلو اسے اچانک ایک دن ملتا ہے۔ اس کی بیوی کا بھی انتقال ہو چکا تھا۔ اس کے دو بچے ہمدان اوریسریٰ ہیں۔
فاروق کی کزن رائنہ اپنے شوہر سے طلاق لے کر، فاروق کے گھر آ کر رہنے لگتی ہے۔ وہ بھی بطور کزن گھر میں رہنے کی جگہ دے دیتا ہے کہ اس کی بیٹی ابھی چھوٹی ہے لیکن رائنہ کے ذہن میں فاروق کی دولت، امارت اور اس گھر کی ملکہ بننے کا خواب تھا، جس کے لیے اس نے اس کی بیٹی سے دوستی بھی کی اور اس کے گھر کو سنبھالنے میں ساتھ بھی دیا مگر اس کی نیت صاف نہیں تھی۔
فاروق کا بیٹا ہمدان جب اپنے دوست کے کہنے پر گھر میں بات کرتا ہے کہ اس کے والد کو شادی کر لینی چاہیے کہ ہم زندگی میں آگے جا کر مصروف ہو جائیں گے تو وہ تنہائی کا شکار ہو جائیں گے، لیکن اس کی بہن یسریٰ دوسری ماں کے لیے راضی نہیں ہوتی۔
ہمدان اسے دنیا کی حقیقت سمجھاتا ہے، رائنہ بھی اسے سمجھاتی ہے لیکن رائنہ نے اس مقام کے لیے خود کو خود ہی سوچ لیا ہے۔
حالات بنتے ہیں اور فاروق اپنے لیے اپنے دوست کی بہن عمائمہ کو پسند کر لیتا ہے اور شادی بھی کر لیتا ہے۔ اب رائنہ انتقام میں فاروق کی بیٹی کو ایک زر خرید لڑکے سے عشق کے چکر میں ڈال کر اس کے ساتھ کچھ نامناسب کروا دینا چاہتی ہے۔ یسریٰ بچ نکلتی ہے لیکن لڑکے نےاس کی تصاویر کا نامناسب استعمال کرتے ہوئے اس کو دھمکی سمیت اس کی تصاویر وٹس ایپ کر دی ہیں۔
مگر یہاں ہیرو پر فوری ولن کے وار کا پردہ چاک ہوجاتا ہے، ہیرو شر سے بچ جاتا ہے۔ یسریٰ اس لڑکے کے وار سے وقتی طور پر بچ گئی ہے۔ رائنہ اس لڑکے سے ایک سڑک حادثے کا سین بنوا کر تمام ثبوت ہتھیا لینے کی کوشش تو کرتی ہے مگر خود ہی اپنے پھیلائے جال میں پھنستی نظر آ رہی ہے۔ فاروق کو ویسے ہی وہ مشکوک لگتی ہے۔
سوتیلی ماں تو رائنہ نہ بن سکی مگر اس کا کردار سوتیلا ہو گیا ہے۔
انوشے کی شادی اپنے کلاس فیلو سے ہو رہی ہے جس کی ماں اس رشتے پر راضی نہیں جب کہ ہمدان بھی انوشے سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے والد نہیں مانے کہ انوشے بد تمیز لڑکی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شادی کے روز انوشے کی بارات واپس چلی جاتی ہے کہ وہ نکاح نامے کو پڑھنے کی شرط رکھتی ہے۔ نکاح نامہ کے کالم نمبر 18 کی بات کرتی ہے اور اپنے طلاق کے حق کی بات کرتی ہے۔ یہ سب وہ کالم ہیں جو نکاح کے وقت اکثر کاٹ دیے جاتے ہیں۔
یہاں یہ نکتہ اچھے انداز سے اٹھایا گیا ہے کہ ہم ابھی ’بدتمیز و بد لحاظ‘ اور ’بولڈ و پُر اعتماد‘ لڑکی کا فرق نہیں کر سکتے۔ عورت کو باشعور بنا کے بھی روایتی کردار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ نکاح نامہ ایک معاہدہ ہے، جس کو دستخط کرنے سے پہلے پڑھ لینا چاہیے اور اس کی جزیات پر فریقین کو بات کر کے پہلے ہی حل کر لینا چاہیے تاکہ بد مزگی کا ماحول پیدا نہ ہو۔
والد کی وفات اور بارات کے واپس چلے جانے کے بعد انوشے کے پاس پھوپھو کا گھر ہی بچا ہے جہاں وہ رہ سکتی ہے، لیکن اس گھر میں بھی اسے آزمائش سے گزرنا ہے کہ گھر کی اکثریت نہ اسے رکھنے کو تیار ہے، نہ اسے پسند کرتی ہے۔ سب کی ناپسندیدگی کی الگ الگ وجوہات ہیں۔
ایک کمی سی محسوس ہو رہی ہے۔ جو کردار اچھے ہیں، وہ فرشتے جیسے ہیں۔ جو برے ہیں، وہ شیطان جیسے لگ رہے ہیں۔ پورا انسان پینٹ کرنا شاید موضوع کو ٹھیس پہنچاتا۔
ایک اہم بات یہ کہ جب عورت کا منفی کردار دکھانا ہے توا سے مغربی لباس میں ہی دکھایا جاتا ہے۔ اگر ہم لباس کو کردار سے جوڑ کے پیش کر رہے ہیں تو لباس یونہی کردار کا عکاس بنا رہے گا۔
اس کے باوجود ڈراما ’نکاح‘ ایک ٹرینڈ سیٹر قسم کا ڈراما ہے۔ ڈرامے کا نام اپنے اندر سماج سے ٹکرانے کی طاقت رکھتا ہے، جہاں نکاح مشکل اور افیئر آسان بنتا جا رہا ہے۔
تمام نئے اداکاروں کے فن کا ارتقا دکھائی دے رہا ہے۔ سینیئر فنکار تو اپنے فن کا لوہا منوا چکے ہوتے ہیں، اس کے باوجود ہر کردار کے ساتھ ان کا فن نکھر کر سامنے آتا ہے۔
سوشل میڈیا پر مرد حارث کے کردار کو پسند کر رہے ہیں اور خواتین انوشے کے کردار کو پسند کر رہی ہیں، شاید اس لیے کہ دونوں کردار سماجی رویوں کی عکاسی کر رہے ہیں لیکن کردار اصل میں ہمدان کا مضبوط اور میچور ہے یا اس کے والد فاروق کا کردار سمجھداری سے فیصلے لے رہا ہے۔
ڈراما نزہت ثمن نے لکھا ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ ایک مشکل کہانی کو سکرپٹ کرنے میں کامیاب دکھائی دے رہی ہیں۔
زاہد محمود نے اس کی ہدایات دی ہیں۔ جیو انٹرٹینمنٹ سے نشر ہونے والے اس ڈرامے کی موسیقی بھی اچھی ہے۔ کہانی کی طاقت کے مطابق بیک گراؤنڈ میوزک کمزور لگا لیکن پھر بھی ڈراما بہت پسند کیا جا رہا ہے۔