پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع خضدار کی حسین وادی کرخ میں معتدل موسم کی وجہ سے آم پیدا ہونے لگے ہیں۔ آم جسے پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے اور گرم علاقوں میں اس کی کاشت ممکن ہے اور اب بلوچستان کی وادی کرخ میں کاشت کار اس بادشاہ کو بڑے شوق سے کاشت کرتے ہیں۔
وادی کرخ کے زمینداروں کو آج سے چند سال پہلے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہاں پر آم اُگائے جا سکتے ہیں، جب ایک شخص چند درخت شجرکاری کرنے میں کامیاب ہوا تو رس دار آم مقامی طور پر کھانا نصیب ہونا شروع ہوا مگر علاقے کے لوگوں نے آم کی کاشت بڑے پیمانے پر اس وقت شروع کی جب انہیں اس کی کمائی اور ڈیمانڈ کا اندازہ ہوا۔
اس گاؤں میں زمیندار رئیس عبدالصمد وہ پہلے کسان تھے جنہوں نے اس وادی میں آم کے پہلے درخت لگائے تھے۔ ان کے چھوٹے باغ میں دو اقسام کے درخت لگے تھے جن میں ایک قسم بڑے اور دوسرا چھوٹے سائز کا آم تھا۔
زمیندار رئیس کا بتانا ہے کہ ’میں بڑے سائز کے آم کراچی کی منڈی میں بھیجتا اور چھوٹے مقامی بازار میں فروخت کرتا تھا۔
’ایک دن چھوٹے سائز کے آم غلطی سے کراچی کی مارکیٹ میں بھیجے تو معلوم ہوا کہ یہ چھوٹے آم بڑے آموں کے مقابلے میں دگنی قیمت کر چکے ہیں کیوں کہ انور رٹول نامی یہ چھوٹے آم اعلیٰ کوالٹی کی وجہ سے مقبول ہیں۔ پھر ہمیں اندازہ ہوا کہ اس آم کے لیے ہمارے علاقے کی آب و ہوا کافی موزوں ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس طرح ہم نے اپنے باغ بڑھانا شروع کیا، اب دیگر فصلوں کی جگہ آم کی کاشت پر لوگوں کا رجحان زیادہ بڑھ رہا ہے۔‘
ایشیئن بینک کے ایک پروجیکٹ کے تعاون سے مقامی کاشت کاروں نے ہزاروں درخت لگائے ہیں۔ اس پروجیکٹ میں شمسی توانائی اور ڈرپنگ نظام کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے جس سے پانی کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہو گیا ہے اور مقدار کے مطابق درختوں کو پانی بھی میسر ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس طرح اس علاقے کے کاشت کاروں کے لیے خوشحالی کے دن شروع ہوئے۔
وادی کرخ کے کاشت کار وزیر احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’وادی کرخ زراعت کے لیے اہم اور زرخیز علاقہ ہے، یہاں ذرائع مواصلات بہتر ہیں، M-8 گوادر ٹو رتوڈیرو شاہراہ کے ذریعے ہمارا علاقہ ملک کے اہم سبزی کی مارکیٹوں سے جڑی ہے۔‘
وزیر احمد کہتے ہیں کہ ’ہمارے علاقے کے آم کراچی کی منڈی میں مقبول ہیں، کیونکہ ہم آم کے درختوں کو کھاد وغیرہ نہیں ڈالتے ہیں، زرخیز زمین کی وجہ سے درخت میں ہی آم پک جاتے ہیں، جنہیں بروقت سبزی منڈی پہنچاتے ہیں۔‘
انور رٹول، سندھڑی، چونسا، لنگڑا، دوسیری، غلاب خاصہ، الماس، سدابہار، چناب کولڈ، شانِ خدا، فجری، سونارو، سرولی سمیت درجنوں اقسام کے درخت اس علاقے میں تجرباتی طور پر پیوند کر کے لگائے گئے ہیں۔
کاشت کاروں کا بتانا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں اس علاقے سے ملک کی بڑی منڈیوں کے لیے بڑے پیمانے پر مال برآمد کریں گے۔
مقامی کاشت کار نصیر احمد کا کہنا ہے کہ ’لوگوں کو دیگر فصلوں میں اخراجات کی وجہ سے نقصانات ہوئے ہیں، اب ہمارے علاقے میں آم کی کاشت کا رجحان زیادہ بڑھ رہا ہے۔ ابتدائی مراحل میں 500 سے 700 گرام کے آم پائے گئے ہیں، اس کی وجہ یہاں زمین کی زرخیزی ہے۔‘
وادی کرخ کے زمیندار عبید اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چار سال قبل درخت لگائے تھے، اب سینکڑوں درخت لگائے ہیں، بلوچستان میں کسی دوسری جگہ آم کاشت نہیں ہوتا، یہ بلوچستان کا واحد گاؤں ہے جہاں آم پیدا ہوتے ہیں۔
بلوچستان کے واحد گاؤں خضدار کی وادی کرخ میں آم کی کامیاب کاشت کا آغاز خوش آئند ہے جو نہ صرف مقامی لوگوں کے لیے آمدن کا آسان ذریعہ ہے بلکہ اگر حکومت ان کاشت کاروں کو مزید سپورٹ کرے تو یہاں کے معیاری آم برآمد کرکے ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔