پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر کنری کا نام سنتے ہی لوگوں کے ذہنوں میں ایشیا کی مرچ منڈی کا نام آتا ہے لیکن اب کنری کے ماہر زراعت ڈاکٹر میر امان اللہ تالپور شہر کو ایک نیا تعارف دینے کے لیے کوشاں ہیں۔
ماہر زراعت ڈاکٹر میر امان اللہ تالپور نے ایک جینوم گارڈن بنایا ہے جہاں وہ آم کی 250 اقسام کاشت کر رہے ہیں، جس کا مقصد مختلف اقسام کے بارے میں تحقیق میں سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی اور بین الاقوامی منڈیوں میں اس کی مانگ کو پورا کرنا ہے۔
پاکستان انڈیا، چین، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا کے بعد آم پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، جہاں کی سالانہ فصل تقریباً 1.8 ملین ٹن ہوتی ہے۔
سندھ کے ضلع عمر کوٹ سے تعلق رکھنے والے 70 سالہ کاشت کار میر امان اللہ خان تالپور کا خیال ہے کہ ان کا منصوبہ مستقبل میں آم کے پروڈیوسرز اور تاجروں کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میری معلومات کے مطابق یہ (پاکستان میں) انوکھے (آم) کے جینوم باغات میں سے ایک ہے۔ ہم پودوں کی ہر قسم کا ڈیٹا رکھیں گے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں جان سکیں کہ کون سی قسم موزوں ہے اور اس کی کارکردگی کیا ہے۔‘
میر امان اللہ تالپور نے اب تک 95 اقسام اکٹھی کی ہیں جن میں سے 35 بیرون ملک سے درآمد کی گئی ہیں اور ان کا ہدف ہے کہ سال کے آخر تک 250 اقسام کاشت کی جائیں۔ اس منصوبے کے پیچھے منطق مختلف ممالک، صوبوں اور مقامی انتخاب سے آم کی متنوع اقسام کو اکٹھا کرنا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’پہلے روایت تھی کہ آم باپ لگائے گا اور بیٹا کھائے گا۔ مگر ہم نے اس تھیوری کو تبدیل کیا ہے، یہ ہماری کامیابی ہے اور کوشش ہے کہ آم باپ لگائے گا اور باپ ہی کھائے گا اور باپ دو سال کے اندر کھائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’آم کی قسم میازاکی ہے جس کی دو طرح سے فارمنگ ہوتی ہے۔ ایک فارمنگ جس میں کنٹرولڈ یعنی شیڈ یا خاص ماحول ہے، درجہ حرارت ہے، دن کی روشنی وہ دیتے ہیں۔ اس میں آپ عالمی منڈی میں مقابلہ کر سکتے ہیں۔‘
آم کی قیمت کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’اب یہ منحصر ہے کہ آپ کا برانڈ باہر کتنا مقبول ہوتا ہے۔ اس وقت جو انڈین آم کی قیمت ہے وہ پاکستانی روپوں میں تین لاکھ روپے کلو ہے۔ اب ہمیں کیا قیمت ملتی ہے؟ وہ ہم جائیں گے تو معلوم ہوگا۔‘
انہوں نے یہ منصوبہ مارچ 2021 میں شروع کیا گیا تھا اور یہ سات ایکڑ اراضی پر محیط ہے جبکہ کچھ پودوں کو پہلے ہی پیوند کیا جا چکا ہے، باقی ابھی تک عمل کے منتظر ہیں۔
تالپور کا مقصد تین سالوں کے اندر نتائج مرتب کرنا اور کسانوں کی آنے والی نسلوں کے لیے نتائج کو محفوظ کرنا ہے۔