کراچی: موت کے بعد بیٹے کے گردے عطیہ کرنے والی ماں نے دو جانیں بچائیں

عطیہ وصول کرنے والوں میں ایک 19 سالہ لڑکی اور ایک مرد ہیں جنہوں نے نئی زندگی پاکر مہر افروز کو ایک وائس ناٹ بھیجا جس میں وہ اس ماں کا شکریہ ادا کر رہے تھے جس نے اتنی ہمت دکھائی۔

شہر قائد کہلائے جانے والے کراچی میں ایک ماں نے اپنے بیٹے کی موت کے بعد اس کے دونوں گردے عطیہ کر دیے۔ ڈاکٹر وصول کرنے والے دونوں مریضوں کی صحت بہتر بتاتے ہیں۔

23 جولائی 2025 کا دن اس ماں کی زندگی کا سب سے کربناک دن بن گیا، جب ان کے 22 سالہ اکلوتے بیٹے سید سلطان ظفر ایک ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہو گئے۔

یہ واقعہ کیسے پیش آیا اس بارے میں نوجوان کی والدہ ڈاکٹر مہر افروز نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 'مجھے دوپہر کے وقت ایک کال آئی، کسی نے کہا آپ کے بیٹے کا حادثہ ہو گیا ہے۔ میں ہسپتال پہنچی تو میرے بیٹے کی دو سرجریز ہوئیں اور کامیاب آپریشن ہوا۔ ایک ہفتے بعد یعنی 29  جولائی کو لیکن ڈاکٹر نے کہا کہ سلطان کی دماغی موت ہو چکی ہے۔ ایک پل میں میری ساری دنیا اجڑ گئی۔‘

ڈاکٹر مہر افروز کے مطابق: 'سلطان ظفر ایک حساس دل اور خدمتِ خلق سے سرشار نوجوان تھا۔ وہ بطور طالب علم ایس آئی یو ٹی میں رضاکارانہ خدمات بھی انجام دے چکے تھا۔ ایک بار انہوں نے اپنی مجھ  سے کہا تھا کہ ’امی، جن لوگوں کا ڈائلیسز ہوتا ہے، وہ بڑی تکلیف سے گزرتے ہیں۔ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں اپنا گردہ دے دیتا۔ ایک گردہ تو دے ہی سکتا ہوں۔‘

ماں (مہر افروز) نے بیٹے کے اس جذبے کو اس وقت یاد رکھا جب خود ان کی دنیا اندھیر ہو گئی تھی۔ ’میرا بیٹا تو چلا گیا، لیکن اس کی خواہش اور انسانیت کے لیے جذبہ میرے فیصلے کی بنیاد بنا۔‘

مہر افروز نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں نے خود ایمبولینس بلوائی اور تکلیف دہ لمحے میں غم سے نڈھال ہونے کے باوجود سلطان کی لاش کو ہسپتال لے کر پہنچی اور بیٹے کے دونوں گردے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) کو عطیہ کر دیے تاکہ وہ دو زندگیوں کو نئی امید دے سکیں۔‘

جس کے بعد 30 جولائی کو میرے بیٹے کو سپرد خاک کر دیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فائدہ اٹھانے والے مریضوں میں ایک لڑکی ہے جس کی عمر 19 سال ہے جبکہ ایک مرد ہیں جنہوں نے نئی زندگی پاکر مہر افروز کو ایک وائس نوٹ بھیجا جس میں وہ اس ماں کا شکریہ ادا کر رہے تھے جس نے اتنی ہمت دکھائی۔

سلطان اب دنیا میں نہیں، مگر ان کا جذبہ، ان کی سوچ، اور ان کا جسمانی حصہ آج بھی کسی کی زندگی کا سبب بن رہا ہے اور ’میں سمجھتی ہوں کہ یہ ایک اچھا کام کر دیا اگر میں اس کے اعضا عطیہ نہ کرتی  تو میرے لیے اس کی موت کو تسلیم کرنا مشکل ہو جاتا۔‘

مہر افروز نے سلطان کی ذاتی زندگی پر بھی تبصرہ کیا انہوں نے بتایا کہ ’جو بچپن سے کرکٹر بننے کا خواب دیکھتا تھا، زندگی کی حقیقتوں کو سمجھتے ہوئے سپورٹس کو خیرباد کہہ کر خاندانی روایت کو اپناتے ہوئے میڈیکل کے شعبے میں آگیا۔

باپ کے 2019 میں انتقال کے بعد وہ اپنے خاندان کا سہارا بننے کی پوری کوشش کرتا رہا۔ ذمہ دار، احساس رکھنے والا اور زندگی سے بھرپور نوجوان سلطان ظفر آج جب اُسے ’مرحوم‘ کہہ کر یاد کرتے ہیں تو کی زبان لڑکھڑا جاتی ہے، دل ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔

’میں اسے ہر جگہ، ہر لمحے، اپنی کھلی آنکھوں سے محسوس کرتی ہوں۔ سلطان جیسے کبھی گیا ہی نہیں، وہ ہر سانس میں، ہر دعا میں زندہ ہے۔‘

ایک ماں کے اس فیصلہ نے معاشرے کے لیے یہ پیغام چھوڑ دیا کہ  دکھ کے لمحوں میں بھی انسانیت کا چراغ روشن رکھا جا سکتا ہے۔

انہوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ بھی اعضا کے عطیے جیسے ’عظیم عمل‘ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ ’وہ مریض جو برسوں سے نئی زندگی کے منتظر ہیں، ایک بار پھر سانس لے سکیں، جینے کی امید باندھ سکیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی صحت