خیبرپختونخوا: والد نے بیٹے کے اعضا عطیہ کر دیے

مردان کے علاقے رستم سے تعلق رکھنے والے 14 سالہ جواد کے والد کا کہنا ہے کہ ’میرا یہی پیغام ہے کہ اگر اپنے کسی بچے کی موت کے بعد زندہ دیکھنا چاہتے ہیں، تو انسانی خدمت کے جذبے کے طور پر ان کے اعضا عطیہ کیجیے۔‘

جواد نامی لڑکے کی موت کے بعد ان کے اعضا نکالنے کا عمل پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں کیا گیا (تصویر: حیات میڈیکل کمپلیکس پشاور)

’میرا بیٹا جواد ٹریفک حادثے میں طبی طور پر فوت ہو گیا تھا لیکن پانچ، چھ دن اسی وجہ سے ہسپتال میں گزارے تاکہ بیٹے کہ اعضا کچھ ضرورت مندوں کو عطیہ کیے جائیں اور ان کی نشانی اس دنیا میں رہے۔‘

یہ کہنا تھا خیبر پختونخوا کے ضلع مردان سے تعلق رکھنے والے نور داد خان کا جنہوں نے ہسپتال انتظامیہ کے مطابق خیبر پختونخوا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنے بیٹے کے جسمانی اعضا عطیہ کیے ہیں۔

مردان کے علاقے رستم سے تعلق رکھنے والے نور داد خان کا 14 سالہ بیٹا ایک ٹریفک حادثے میں زخمی ہوا تھا جس کو علاج معالجے کے لیے ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہاں انہیں برین ڈیڈ (جو صرف وینٹی لیٹر پر سانس لے سکتا ہوں باقی دماغ کرنا چھوڑ دیتے ہے) قرار دیا گیا تھا۔

پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ ’انسانیت کے ایک غیر معمولی کیس میں 14 سالہ بیٹے کے والد بیٹے کے انسانی اعضا عطیہ کرنے کے لیے راضی ہوگئے تھے۔‘

بیان کے مطابق جواد کو ٹریفک حادثے میں سر پر شدید چوٹے آئی تھی اور ان کو حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں داخل کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہسپتال انتظامیہ کے مطابق، ’ڈاکٹروں کی ٹیم نے حتٰی الوسع کوشش کی لیکن تمام کوششوں کے بعد قانونی اور طبی ضابطہ اخلاق کے تحت مریض کو برین ڈیڈ قرار دے دیا گیا اور کہا گیا کہ اب یہ کبھی بھی واپس زندگی میں نہیں آسکتے۔‘

بیان کے مطابق جب خاندان والوں کو اطلاع دی گئی تو ’انسانیت کی مثال قائم کرتے ہوئے ان کے والد اور چچا نے ان کے اعضا عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ ضرورت مندوں کے کام آ سکیں۔‘

ہسپتال انتظامیہ کے مطابق ’ہسپتال انتظامیہ نے قانون کے مطابق میڈیکل ٹرانسپلانٹ ریگولیٹری اتھارٹی کو مطلع کیا اور جواد کے پانچ اعضا نکالنے کا فیصلہ کیا گیا۔‘

اس فیصلے کے بعد ہسپتال انتظامیہ کے بیان کے مطابق ’جگر، دو گردے اور دونوں آنکھوں کے کارنیا کامیابی سے حیات آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز، بحریہ اٹرنیشنل ہسپتال راولپنڈی، سی ایم ایچ راولپنڈی اور پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ لاہور کے ڈاکٹروں کی ٹیم کی معاونت شامل تھی۔‘

جواد کے والد نورداد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب مجھے اعضا عطیہ کرنے کا بتایا گیا تو میں نے اپنے والد سے مشورہ کیا اور ان کی اجازت کے بعد میں نے ڈاکٹروں کو بتایا کہ جس کو جس اعضا کی ضرورت ہے، وہ نکال لیں۔‘

نور داد خان کا کہنا ہے کہ ’میں یہی سوچ رہا تھا کہ ویسے بھی یہ جسم دفن ہونے کے بعد مٹی ہونا ہے، تو کیوں نہ انسانیت کے لیے کچھ کیا جائے تاکہ میرے بیٹے کے کچھ اثار اور نشانی اس دنیا میں رہے۔‘

’میرا یہی پیغام ہے کہ اگر اپنے کسی بچے کی موت کے بعد زندہ دیکھنا چاہتے ہیں، تو انسانی خدمت کے جذبے کے طور پر ان کے اعضا عطیہ کیجیے۔‘

نور داد نے کہا کہ ’اب تک میرا بیٹا میرے نام سے پہچنانا جاتا تھا لیکن اب میری پہچان میرے بیٹے جواد کی وجہ سے ہوگی۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان