ڈاکٹروں نے الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں الشفا میڈیکل کمپلیکس کے صحن کو کھود کر وہاں موجود سینکڑوں لاشوں کو قبضے میں لے کر بغیر کسی جواز کے نامعلوم مقام پر پہنچا دیا۔
حقوق انسانی کے متعدد اداروں اور تنظیموں نے الشفا کمپلیکس اور انڈونیشیا کے ہسپتال سے چند افراد کی لاشوں کو اسرائیل کی جانب سے قبضے میں لینے کے الزامات کی چھان بین کے لیے ایک آزاد بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ بات غزہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں کے حوالے سے سامنے آئی، جنہوں نے واپس کی گئی کچھ لاشوں کا معائنہ کیا، جنہیں اسرائیلی فوج نے حال ہی میں ریڈ کراس کے حوالے کیا۔
انہوں نے لاشوں کی آنکھ کے قرنیہ، کوکلیا اور دیگر اعضا جیسے کہ جگر، گردے اور دل کی چوری کا نوٹس لیا۔ غزہ میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 7000 افراد لاپتہ ہیں جن میں سے درجنوں کو اسرائیل نے قید کر رکھا ہے۔
باقیات اور لاشیں
2019 میں اسرائیلی سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ جاری کیا تھا، جس میں فوجی گورنر کو لاشوں کو قبضے میں لینے اور انہیں عارضی طور پر دفن کرنے کی اجازت دی گئی، جسے نمبر قبرستان کہا جاتا ہے (بند فوجی علاقے جہاں لاشوں یا باقیات پر لگی دھاتی پلیٹوں پر نمبر کندہ کرکے گمنام طور پر دفن کیا جاتا ہے)۔ 2021 کے آخر میں اسرائیلی پارلیمان کنیسٹ نے اس بارے میں قانون سازی کرکے اسے مزید مضبوط کیا۔ یہ پولیس اور فوج کو مردہ فلسطینیوں کی باقیات رکھنے کا اختیار دیتا ہے۔
بین الاقوامی قانون مسلح تنازعات کے دوران جان سے جانے والوں کی لاشوں کے احترام اور ان کی حفاظت کی ضرورت پر زور دیتا ہے، جیسا کہ چوتھے جنیوا کنونشن کے تحت یہ شرط عائد ہوتی ہے کہ فریقین کو مرنے والوں کی لوٹ مار اور ان کی لاشوں کو مسخ کرنے سے روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے چاہییں جبکہ اقوام متحدہ انسانی اعضا کی سمگلنگ کو ایک ’جرم‘ قرار دیتا ہے۔
اقوام متحدہ کی جرائم اور مجرمانہ انصاف کی روک تھام کی کمیٹی نے مئی 2014 میں ایک قرارداد جاری کی تھی، جس میں انسانی اعضا اور انسانوں کی سمگلنگ پر پابندی عائد کی گئی اور اس کا تدارک کرنے کی سفارش بھی کی گئی تھی۔
ایک تحقیق کے مطابق اسرائیل میں ’انسانی جلد‘ کا ذخیرہ 170 مربع میٹر تک پھیلا ہوا ہے اور یہ 1985 میں قائم ہونے والے ’اسرائیلی سکن بینک‘ میں محفوظ ہے۔ اس کا بنیادی فراہم کنندہ مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی فرانزک انسٹی ٹیوٹ تھا۔ بینک نے 2000 میں دوسرے انتفاضہ کے دوران اپنی اہمیت ثابت کی، جب بہت سے جھلس جانے والے اسرائیلیوں کی جانیں بچانے میں کامیاب ہوئے۔
عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے یورپی یونین کی آرگن ٹرانسپلانٹیشن کمیٹی کی تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق آبادی کے لحاظ سے اعضا کی پیوند کاری میں تل ابیب 55 یورپی ممالک میں 33 ویں نمبر پر ہے۔
بھرپور تاریخ
اگرچہ متعدد ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں نے یورو میڈیٹیرینین آبزرویٹری کو تصدیق کی کہ فرانزک طبی معائنہ اعضا کی چوری کو ثابت یا تردید کرنے کے لیے کافی نہیں ہے، خاص طور پر جب جسموں پر ماضی میں جراحی ہوئی ہو۔ انہوں نے لاشوں کا درست تجزیاتی معائنہ کروانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ جنیوا میں قائم آبزرویٹری نے تصدیق کی کہ ’اسرائیل کی مرنے والے فلسطینیوں کی لاشوں کو حراست میں لینے کی ایک طویل تاریخ ہے۔‘
آبزرویٹری نے نشاندہی کی کہ اسرائیل ’مخصوص علاقوں میں واقع خفیہ اجتماعی قبروں میں انہیں حراست میں رکھتا‘ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس نے ماضی میں بھی مشاہدہ کیا تھا کہ ’اسرائیلی حکام دانستہ طور پر مغربی کنارے کے رہائشیوں کو ان کے اپنوں کی منجمد لاشیں حراست میں کچھ مدت رکھنے کے بعد اس شرط پر چھوڑتے ہیں کہ ان کو کھولا نہ جائے۔ اعضا کی چوری کے پیچھے کیا وجہ ہو سکتی ہے؟‘
آبزرویٹری کے مطابق اسرائیل واحد ملک ہے جو مرنے والوں کی لاشوں کو حراست میں لیتا ہے اور اسے ایک منظم پالیسی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اسے انسانی اعضا کی غیرقانونی تجارت کا سب سے بڑا عالمی مرکز قرار دیا جاتا ہے۔ مرنے والوں کی لاشوں کو ان کے اہل خانہ کے حوالے کرنے سے انکار کرنا اجتماعی سزا کے مترادف ہو سکتا ہے۔ ہیگ ریگولیشنز کے آرٹیکل 50 اور چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 33 کے ذریعے ایسا کرنا ممنوع ہے۔
جائز شکوک و شبہات
’شہدا کی لاشوں کی بازیابی کے لیے قومی مہم‘ نامی تنظیم کا خیال ہے کہ آبزرویٹری کی طرف سے اٹھائے گئے شکوک و شبہات کہ اسرائیل موجودہ حالات میں فلسطینیوں کے اعضا چرا رہا ہے، جائز ہیں اور خارج از امکان نہیں، خاص طور پر جب اسرائیلی حکام انہیں حوالے کرتے وقت لاشیں دفن کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مقتولین کے اہل خانہ کی جانب سے کسی ممکنہ کارروائی کے پیش نظر وہ رات کے وقت اور پوسٹ مارٹم کے بغیر منجمد لاش حوالے کر دیتے ہیں۔ یہ اقدام فلسطینیوں کو فرانزک طبی طریقہ کار کرنے سے اس وقت تک روکتا ہے جب تک کہ لاش پگھل نہ جائے۔
ماہرین کے مطابق اس کے لیے کم از کم 24 سے 48 گھنٹے درکار ہوتے ہیں، لیکن زیادہ تر خاندان اس انتظار کو برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ پوسٹ مارٹم کی بجائے سی ٹی سکین کرواتے ہیں۔
مہم کے اعداد و شمار کے مطابق 2015 سے اسرائیل مغربی کنارے اور یروشلم سے تقریباً 177 فلسطینیوں کی لاشوں کو خصوصی فریزروں میں منفی 40 درجہ حرارت تک منجمد کر دیتے ہیں۔
مہم کے کوآرڈینیٹر حسین شجاعیہ کے مطابق 2008 سے اسرائیلی عدالتوں کے سامنے مہم کی پیروی اور قانونی درخواستیں اسرائیل کو نہیں ہلا سکی ہیں۔
شجاعیہ نے مزید کہا: ’ہم نے حراست میں لی گئی لاشوں کے نام اور قبروں کے نمبروں کے ساتھ ریڈ کراس کے لیے ایک مکمل فائل تیار کی ہے اور اگر اسرائیل انہیں مستقبل کے افراد اور لاشوں کے تبادلے کے معاہدوں میں شامل کرنے سے انکار کرتا ہے تو وہ انہیں حراست میں رکھنے کا جواز کھو دے گا۔‘
اس تنظیم کے پاس کوئی حتمی ثبوت نہیں ہیں، جن سے یہ ثابت ہو کہ اسرائیلوں نے فلسطینیوں کی لاشوں سے اعضا یا جلد چرائی ہے۔
سنگین خدشات
اسرائیل میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم فزیشنز فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کے الشفا ہسپتال پر دھاوا بول کر متعدد لاشیں قبضے میں لینے سے ان لاشوں کے اعضا کی چوری اور تجارت کے خدشات کو تقویت ملتی ہے۔
تنظیم کے ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ پراجیکٹس اصیل ابو راس نے کہا کہ ’اس بات پر شدید تحفظات ہیں کہ فوج مردہ فلسطینیوں کی لاشوں سے اعضا کی چوری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور تبادلے کے معاہدوں کے حوالے سے جاری مذاکرات میں بھی استعمال کر رہی ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’گذشتہ برسوں کے دوران معتبر ذرائع سے ردعمل اور رپورٹس جاری کی گئی ہیں جن میں مرنے والے فلسطینیوں کے اعضا بشمول جلد کی چوری کے بارے میں بہت سے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔‘
اسرائیل میں اعضا کی پیوند کاری کے قومی مرکز نے اشارہ دیا کہ سال 2017 کے دوران اس نے ایسے مریضوں کے اعضا کی پیوند کاری کے 520 آپریشن کیے جن کی حالت نازک تھی، جن میں گردے کی پیوند کاری کے 222 آپریشن اور شدید جھلسنے والے لوگوں کے درجنوں آپریشن شامل ہیں۔ سال 2016 کے دوران اس نے نابینا افراد کے لیے قرنیہ کی پیوند کاری کے 839 آپریشن کیے، 155 ہڈیوں کی پیوند کاری اور 55 دل کے والو ٹرانسپلانٹس شامل ہیں۔
فلسطینیوں کے الزامات
ایک ایسے وقت میں جب یہودی برادری اعضا کے عطیے کے خیال کو عملی طور پر قبول نہیں کرتی، اسرائیل کے پاس دنیا کا سب سے بڑا سکن بینک ہے، جو اس حوالے سے اس پر لگائے گئے الزامات کو تقویت دیتا ہے۔ 2015 کے آخر میں اسرائیل کے سربراہ اقوام متحدہ میں فلسطینی اتھارٹی کے مندوب ریاض منصور نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھیجے گئے خط میں الزام لگایا کہ اسرائیل اپنی فوج کے ہاتھوں مرنے والے فلسطینیوں کی لاشوں سے اعضا چراتا ہے۔
منصور نے اس وقت اپنے خط میں لکھا تھا کہ ’اکتوبر 2015 کے دوران قابض فوج کے ہاتھوں قتل کیے گئے فلسطینیوں کی حراست میں لی گئی لاشیں واپس کرنے اور طبی معائنے کے بعد یہ واضح ہوا کہ لاشیں قرنیہ اور دیگر اعضا کے بغیر واپس لائی گئیں۔‘
اسرائیل نے اہل خانہ کی رضامندی کے بغیر مردہ فلسطینیوں کے اعضا لینے کی تردید کی تھی اور اس طرح کے الزامات کو 'یہود مخالف' قرار دیا تھا۔
فلسطینی حکومت نے گذشتہ سال جولائی میں اسرائیل پر الزام لگایا تھا کہ وہ اسرائیلی یونیورسٹیوں میں طبی لیبارٹریوں میں زیر حراست فلسطینیوں کی لاشوں کو استعمال کر رہا ہے، جسے اس نے ’انسانی حقوق اور سائنسی اقدار، اصولوں اور اخلاقیات کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔‘ فلسطینی وزیراعظم، محمد شطیہ نے اس وقت بین الاقوامی یونیورسٹیوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسرائیلی یونیورسٹیوں کا بائیکاٹ کریں۔
اپریل 2017 میں اسرائیلی حکام کے اعلان کے بعد کہ وہ 123 فلسطینیوں میں سے 121 لاشیں کھو چکے ہیں، جنہیں وہ 1990 کی دہائی سے اپنے پاس رکھے ہوئے تھے، انسانی حقوق کے مراکز اور انجمنیں، بشمول HaMoked Center for the Defence of Individual اور یروشلم سینٹر برائے انسانی حقوق، اسرائیل پر ’غفلت‘ کا الزام لگایا۔
فلسطینیوں کے لیے لاشوں کی فائل کی اہمیت نے 2008 میں فلسطینی حکومت کو ہر سال 27 اگست کو اسرائیل کے زیر حراست لاشوں کی واپسی کے لیے قومی دن کے طور پر منانے پر مجبور کیا، اس دوران انہیں ان کی یاد دلانے کے لیے تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
دوسری طرف اسرائیلی قانون لاشوں کو حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے کہ اسے مستقبل میں سودے بازی کی چپ کے طور پر استعمال کیا جائے اور غزہ کی پٹی میں حماس کے زیر حراست اسرائیلی قیدیوں کا تبادلہ کیا جاسکے۔
نوٹ: یہ تحریر اس سے قبل انڈپینڈنٹ عربیہ پر شائع ہوچکی ہے۔